کالمز

کروناوائرس 

زاہد علی سکساوی
بحیثیت قوم ہم اخلاقیات کی کس معیار پے کھڑا ہے ایک بار پھر پوری دنیا کے سامنے ہماری اصلیت اور اوقات  ظاہر ہوگئیں۔
ہم کون ہیں، کس طرح کے بے حس لوگ ہیں جو انسانوں کے جانوں سے بھی کھیلنے سے دریخ نہیں کرتے؟
کل پاکستان میں کروناوائرس کے دو کیسس سامنے آئے حکوت نے شہریوں کو ضروری احتیاطی تدابیر کے حوالے سے اگاہی دی۔
آج مارکیٹ میں ماسک لینے کی غرض سے جانے کا اتفاق ہوا دکاندار سے ماسک کا  قیمت پوچھا تو پیروں تلے زمیں نگل گئی کل تک جو ماسک پانچ روپے میں ملتا  تھا ایک رات میں پچاس روپے پے آگیا تھا،پھر سوچا شائد میں نےغلط سنا ہو دوبارہ تصدیق کرنے کی غرض سے ان سے کہا  حاجی صاحب مجھے پیکیٹ نہیں ایک دانہ چاہیے دوکاندار حاجی صاحب نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے میں نےاُس سے گردہ مانگا ہو اور غصہ میں بولا بھائئ صاحب ایک ماسک کی قیمت پچاس ہے آپکو لینا ہے تو لے نہیں تو باقی لوگوں کو آنے دو میں نے تھوڑی دیر بحث کی مگر مجبوراً اُسی قیمت میں خریدا جو حاجی صاحب نے بتایا تھا دکھ اس بات کا نہیں تھا کی پچاس میں خریدنا پڑا دکھ اس بات پے ہو رہا تھا ایک  تو ہم خود کو پاک صاف مسلمان اور عاشقان رسول کہتے نہیں تھکتے اور دوسری طرف ہمارا یہ حال ہم لوگوں کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں آپ کسی بھی دکان پے چلے جائیے گا دکان کا نام مسلمان نام سے منصوب جیسے کی مدنی جرنل سٹور،اللہ والا جرنل سٹور اس کے ساتھ میں الحاج یا حاجی صاحب ہوگا لیکن یہ صرف نام تک ہوگا وہ آپ کو ہر طرح کے بے ایمانی،جھوٹ،ناپ تول میں خرد برد اور ذخیرہ اندازی کر کے ہر چیز کی دگنی قیمت وصول کرے گا آپ سے دو چار روپے کی فائدے کے لیے اللہ رسول کی جھوٹی قسمیں کھائیں گے اور جھوٹ بول کے ناجائز مال کمانے میں ذرہ بھی شرم محسوس نہیں کرے گا۔ اگر دیکھا جائے تو ہم پوری دنیا میں سب سے زیادہ حج پے جانے والے ملک میں پہلے نمبر پر آتا ہے اور سب سے زیادہ بے ایمانی کرنے والے قوموں کی سرفہرست میں ہمارا ملک آتا ہے ۔
 ہمارے دین اور نبی کی تعلیمات نہیں ہے کی ہم لوگوں کے مجبوریوں کا غلط فائدہ اٹھائیں بلکہ ہماری دین کی تعلیمات یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت میں ہو تو اس کی مدد کریں،اس کے لیے آسانی پیدا کریں۔مگر افسوس ہم کتنی گری ہوئی قوم ہے ہمارے اعمال سے عیان ہو رہا ہے۔حکومت کو چاہیے اِن منافع خوروں کے خلاف سخت کاروائی کریں اور اس سے بچاؤ اور احتیاطی حل ڈھونڈیں سکولوں سے چھٹی کر کے وائرس کو آپ قابو نہیں کر سکتے بلکہ یہ اپنی ذمے داری سے منہ پھیرنے والی بات ہے کب تک سکول بند رکھو گے یہ کوئی حل نہیں ہے۔پچھلے ایک ماہ سے زائد عرصہ سے اس وائرس کی بازگشت پوری دنیا میں ہوری اور ہم سویا ہوا ہے۔اب بھی اس سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس کوئی پلان نہیں ہے۔میری حکومت سے مطالبے ہے بنا کسی تاخیر کے اس مسلۂ کا ادارک کرتے ہوئے ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کریں عوام کو آگاہی دیں کیسے وہ خود کو اس ناسور سے کیسےبچا سکتا ہے عوام بھی ان ہدایت پر سختی سے عمل کریں آخر میں میری دعا ہے اللہ ہم سب کو اس موذی مرض سے بچا کے رکھیں آمین

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button