کالمز

گلگت بلتستان کا متفقہ قومی بیانیہ

تحریر: شہزاد حسین الہامی  

گلگت بلتستان میں متوقع آرڈر 2020کی آمد اور عام انتخابات کے قریب آتے ہی خطے کی سیاسی مذہبی اور قوم پرست جماعتیں ایک مرتبہ پھر سے سرگرم عمل ہو چکی ہے۔ اس سلسے میں گزشتہ دنوں اسلامی تحریک کی جانب سے مقامی ہوٹل میں پارلیما نی جماعتوں کا آل پارٹیز کانفرنس بھی کیا گیا، جسکے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے آئینی حقوق کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ رابطوں کا سلسہ شروع کیاہے  تو دوسری طرف پیپلزپارٹی گلگت بلتستان کے صوبائی صدر امجد حسین ایڈووکیٹ نے بھی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ متفقہ بیانیہ کے لئے کوششوں کا آغا ز کر دیا ہے ساتھ ہی تحریک انصاف گلگت بلتستان کے صوبائی صدر سید جعفر شاہ نے بھی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کا آغاز کر دیا ہے،جب کہ گلگت بلتستان کی حکمران جماعت کے چند صوبائی وزراء نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کیا جس کے بعد غیر منتخب وزراء کے بیان کے بعد حکمران جماعت نے مکمل خاموشی اختیار کر لی ہے۔ حکمران جماعت نے موقف اختیار کیا کہ آرڈر2020کے آنے کے بعد مسلم لیگ ن اپنا موقف پیش کریگی۔

 گزشتہ 72سالوں سے گلگت بلتستان کی سیاسی،مذہبی اور قومی پرست جماعتوں کا متفقہ بیانیہ سامنے نہیں آ سکا، جس کی وجہ سے وفاق میں کوئی بھی حکومت برسراقتدار آئی انہوں نے اپنی مرضی سے کبھی اصلاحات اورکبھی آرڈر کا نام دیکر گزشتہ 72سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام کو ہمیشہ بیوقوف بنانے کا سلسہ جاری رکھا ہوا ہے۔

محترم قارئین!

گزشتہ 72سالوں میں گلگت بلتستان کے عوام نے اپنے حقوق کے لئے جدوجہد جاری رکھا ہوا ہے مگر ایک بیانیہ کے ساتھ قومی تحریک چلانے میں کامیاب نہیں ہو سکے، اور اس سب سے بڑی وجہ علاقے کے سٹیک ہولڈز کا اپنااپنا الگ بیانیہ ہونے کی وجہ سے قومی تحریک کا آغاز نہیں ہو سکا۔اب کچھ جماعتوں کی جانب سے متفقہ قومی بیانیہ کے لئے جدوجہد کا آغاز علاقے کے عوام کے لئے نیک شگون تصور کیا جا رہا ہے، مگر اس میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے جاری متفقہ قومی بیانیہ کے لئے سرگرمیاں کہیں انکی الیکشن کمپین کا حصہ تو نہیں؟ یہ بھی قابل غور بات ہے اگر واقعی گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے سنجیدگی سے کہیں پر کوئی بھی سیاسی جماعت سرگرم عمل ہے تو پھر واقعی قابل تعریف ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام گزشتہ 72سالوں سے حقوق سے محروم ہیں اور اس میں وفاقی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ مقامی قیادت بھی کے عوام  اس جرم میں برابر کی شریک ہے۔ 72سالوں میں قومی بیانیہ سامنے نہیں آنا بہت بڑا المیہ تھا جسکی وجہ سے وفاقی جماعتوں کو موقع ملا کہیں پر کشمیر کاز اور کہیں پر اقوام متحدہ کی قراداوں کا بہانہ بنا کر خطے کے عوام کو سیاسی، معاشی اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا،یہاں پر وضاحت کرتا چلو کہ اقوام متحدہ کی قرادروں میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک اس خطے میں لوکل اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جایا، جب کہ گلگت بلتستان میں اب تک لوکل اتھارٹی کے قیام کے لئے بھی کوئی جدوجہد نظر نہیں آ رہی ہے۔

گزشتہ سال گلگت بلتستان کے وکلاء نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں گلگت بلتستان کے عوام کا مقدمہ لڑا  اور جب اس کیس کا فیصلہ سامنے آیا اسکے بعد بھی ہماری مقامی قیادت کو فیصلہ سمجھنے کی بجائے کسی نے حمایت کی اور کسی نے اس فیصلہ پر مخالفت میں سازشیں بھی کی، واضح رہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدعلاقے کی جماعتوں کو چاہیں تھا کہ وہمل بیٹھ کر تقریب کا اہتمام کرتے اور گلگت بلتستان کے عوام کا مقدمہ لڑ نے والوں وکلاء کو بلاتے انکی حوصلہ افزائی کرتے ساتھ ہی اس فیصلے کی آئینی حقوق کے لئے اہمیت پر وکلاء سے رائے لیتے، اور اس وقت قومی فورم کی تشکیل دیتے اور اس فیصلے پر عمل درآمد کے لئے عملی جدوجہد کا آغاز کرتے مگر افواس پورا سال کا عرصہ گزار گیا، اس پر کوئی کام نہیں ہو سکا، جس کے بعد حسب رویات تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے آرڈر2020لانے کا فیصلہ کر لیا اورمقامی رہنما نے دعوی کیا کی آرڈر2020امور کشمیر میں سیکشن آفیسر تیار کر رہا ہے،مگر اس آرڈر میں کیا کچھ تیار ہو رہا ہے وہ اس وقت تحریک انصاف کی گلگت بلتستان کی صوبائی قیادت کو بھی معلوم نہیں، باخبر زرائع کے مطابق تحریک انصاف کے صوبائی صدر سید جعفر شاہ سے وفاق سے رابط کیا گیا کہ وہ اس آرڈر کی حمایت میں علاقے میں ماحول پیدا کریں، جس پر سید جعفر شاہ نے آرڈر2020کا ڈراف مانگ لیا اور موقف اختیار کیا کہ اس آرڈرکی کاپی مجھے دی جائے تاکہ اس کو پڑھنے کے بعد وہ اس پر اپنی رائے دیں گے جس کے بعد اب تک شاہ صاحب کواس کی کاپی فراہم نہیں کی گئی، یہاں پر یہ بھی وضاحت کرتا چلو کہ پیپلزپارٹی کے دورے حکومت میں جب وفاقی حکومت آرڈر2009کو تیار کر رہی تھی اس کمیٹی میں سید جعفر شاہ موجود تھے اور اس سارے عمل میں شاہ صاحب اس وقت پیپلزپارٹی شمالی علاقہ جات کے صدر بھی تھے اور ماہر قانون دان بھی،اب ایک مرتبہ پھر سید جعفر شاہ صاحب کو اللہ تعالی نے ایک اور موقع فراہم کیا ہے، 2009کے آرڈرکو تیار کرنے کے بعد شاہ صاحب نے عدلیہ کا رخ کیا اور وہاں سے اس آرڈرکو عملی میدان میں عمل درآمد ہوتے ہوئے قریب سے دیکھا،اور اس کے فائدے اور نقصانات کا بھی موازنہ شاہ صاحب نے کیا ہو گا، اب کی دفعہ سید جعفر شاہ کے پاس حکمران جماعت تحریک انصاف کی قیادت موجود ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ شاہ صاحب آرڈر2020کے حوالے سے کیا موقف اختیار کرتے ہیں؟اب تک اس آرڈر کے حوالے سے تحریک انصاف گلگت بلتستان کی قیادت کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا؟اگر تحریک انصاف کی مقامی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا ہے تو پھر مقامی قیادت نے اب تک علاقے کی دیگر جماعتوں کو اعتماد میں کیوں نہیں کیا؟ اس قسم کے بہت سے سوالات جنم لیں رہے ہیں، اور دوسری طرف گلگت بلتستان کے مستقبل کے لئے متقفہ قومی بیانیہ کی تشکیل کے لئے کی جانی والی جدوجہد کو بھی خطے کی عوام سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔قومی بیانیہ کے لئے یہ کوشش 72سال پہلے ہوئی ہوتی اور شدید آج ہماری منزل کہیں اور ہوتی، مگر اب اس سارے عمل کو سنجیدگی سے مکمل کرنے کی ضرورت ہے اور مقامی قیادت کو چاہیں کہ وہ اس پر ایک دوسروں کے بیانیہ کو غور سے سنیں اور دلائل کے ساتھ ساتھ قانونی ماہرین کی تجویز اور سپریم کورٹ آف پاکستا ن کے گزشتہ سال کے فیصلہ کو بھی مدنظر رکھا کر قومی بیانیہ تیار کریں اور تمام جماعتوں کے مقامی قیادت اس کو تیار کرنے کے بعد ملکر گھڑی باغ کے مقام پر عوامی جلسہ میں عوام کے سامنے پیش کریں اور عوام سے بھی تائید کریں اور اس قومی بیانیہ کے حصول کے لئے اپنی اپنی جماعتوں کے ساتھ ملکر مکمل کرنے کی جدوجہد کریں، آخر میں اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالی ہماری مقامی قیادت کوتوفیق دیں کہ وہ اپنی انتخابی سیاست سے ہٹ کر علاقے کے مستقبل کے لئے ضد اور انا کو چھوڑ کر علاقے کے روشن مستقبل کے لئے متقفہ قومی بیانیہ سامنے لا ئیں.

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button