کالمز

نبی معلم کی امت اور کرونا وائرس

تحریر: امیرجان حقانی

جب بھی یہ سوال اٹھتا ہے تو دل پریشان سا ہوتا ہے کہ نبی معلم کی امت کہاں کھڑی ہے؟
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ اسلام نے جدید سائنسی علوم کی کبھی بھی مخالفت نہیں کی ہے، بلکہ جدید علوم و فنون کی حمایت کی اور ان کی پروموشن کی بات کی.
جس نبی کو معلم بناکر مبعوث کیا گیا اور اس نے معلمی کا حق ادا بھی کیا مگر پھر اس کی امت تعلیم سے دور ہوتی گئی کہ  آج اس نے تعلیم میں تقسیم کرڈالا.

یہ اسلامی تعلیم
وہ دنیاوی تعلیم

اس تقسیم نے اسلامی دنیا کو کہیں کا نہیں چھوڑا. سچ یہ ہے کہ یہ تقسیم لایعنی ہے.
تعلیم کے حوالے سے ہم فکر وعمل میں تضاد کا شکار ہیں.
پرائمری سے یونیورسٹی تک اور ناظرہ  سے بخاری تک
کے اساتذہ کیساتھ سرکاری اور پرائیوٹ سطح پر ہمارا جو عمومی، سماجی اور انتظامی رویہ ہے اس پر کسی آگاہی کی ضرورت نہیں.
عملی شکل میں معلم کو جو اسٹیٹس ہم نے دیا ہے اس سے یہ طبقہ اچھوت ہی کہلا سکتا ہے.
جب صورت حال یہ ہو تو پھر نبی معلم کی امت کا جو حال ہے وہی ہونا تھا. اس میں خفگی کی ضرورت بھی نہیں.
یہ شکایت عبث ہے کہ نبی معلم کی امت تحقیق و تخلیق اور فن و علم اور سائنس میں کیوں پیچھے رہ گئی اور دیگر انیباء کی امتیں کیوں آگے نکل گئی.
ایک کرونا کیا وجود میں آیا، مسلم دنیا تعلیم گاہوں کے ساتھ عبادت گاہوں کو بھی بند کررہی ہے جبکہ مسیحی اور یہودی اور دیگر نان مسلم دنیا سائنسی تحقیق کی طرف بڑھ رہی ہے کہ آخر اس وبا کا کیا سائنسی حل نکل سکتا. متضاد خبریں آرہی ہیں کہ اس کا ویکسین تیار ہوچکا ہے اور نبی معلم کی امت اس ویکسین کی انتظار میں ہے کہ مہنگے داموں خریدے. ہم نے انتظامی، سماجی اور قانونی سطح پر تعلیم اور معلم کا جو حشر کیا ہے اس کا رزلٹ یہی نکلنا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں.
ایک ابہام دور کرلیجے کہ تعلیم و تحقیق اور علم و فن کے متعلق اسلام کے احکام، ترغیبات اور نبی معلم کا عمل واضح اور دو ٹوک ہے.یہ جو خرابیاں اور کمزوریاں پیدا ہوئی ہیں، نبی معلم کی زندگی اور الہی  تعلیمات سے روگردانی کا نتیجہ ہے جو مسلم اہل اقتدار اور صاحبان بست وکشاد نے اپنائی ہوئی ہیں.

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button