اسپتال کا عملہ، ہراول دستہ
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
پشاور کے سنیئر ڈاکٹر محمد جاوید نے کورونا سے لڑتے ہوئے جان دیدی وہ کان ناک اور گلے کے امراض میں مہارت رکھتے تھے کورونا کا جرثومہ نا ک اور گلے میں پرورش پاتا ہے اس کا ٹیسٹ کرنے کیلئے ای۔این۔ٹی سپیشلسٹ مریض کا لعاب حاصل کرکے ٹیسٹ کے لئے بھیجتا ہے۔
ڈاکٹر جاوید حیات میڈیکل کمپلکس میں ای۔این۔ٹی کے شعبے کا سربراہ اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی میں اس شعبے کا پروفیسر تھاوہ چاہتا تو اپنے ماتحتوں سے کام لے سکتا تھالیکن وہ محاذ پر جاکر لڑنے والا سپاہی اور وبائی مرض کے خلاف لڑنے والوں کے ہراول دستے کا سپہ سالار تھا وہ خود آگلے مورچوں پر جاکر وبائی مرض کے جراثومے سے لڑتا تھا اور اس نے دوسروں کی جان بچانے کیلئے اپنی جان کی پروا نہیں کی۔یہ وہ وقت تھا جب چین سے حفاظتی سامان نہیں آیا تھا۔ اگر آیا تھا تو ڈاکٹروں کو نہیں ملاتھا طبی عملے نے حفاظتی سامان کو دیکھا بھی نہیں تھا طبی عملہ اورڈاکٹروں کی ٹیمیں اسلحے کے بغیر لڑرہی تھیں۔چنانچہ جرثومہ لگ گیا اور ہم ایک بڑے معالج کی خدمات سے محروم ہوگئے۔
اب تک پورے ملک میں 124ڈاکٹر 39نرس اور90پیرامیڈیکل سٹاف متاثر ہوچکے ہیں۔کچھ تندرست ہوئے،بعض زیر علاج ہیں۔موت کے منہ میں جانے والے ڈاکٹروں میں سے ایک کا تعلق گلگت بلتستان سے،ایک کا تعلق سندھ اور ایک کا تعلق خیبرپختونخواہ سے تھا۔
انگریزی میں ہراول دستے کیلئے فرنٹ لائن فائیٹر کی ترکیب استعمال ہوتی ہے اس لئے لڑنے والے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو سلام۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخواہ محمود خان نے حیات آباد میڈیکل کمپلکس کا دورہ کرکے ڈاکٹروں سے یک جہتی کا اظہار کیا شہید ہونے والے ڈاکٹر کے لئے سول اعزا ز کا اعلان کیا اور ان کے کنبے کو خصوصی پیکیج دینے کا وعدہ کیا۔
ڈاکٹر ی کا پیشہ بھی عجیب ہے حکومت اور عوام کے ساتھ اس پیشے کا آنکھ مچولی والا تعلق ہے۔حکومت اور عوام ڈاکٹر سے کام بھی لیتے ہیں اور کام لینے کے بعد عوام ڈاکٹروں کو گندی گالیاں دیتے ہیں حکومت ڈاکٹروں پر ڈنڈے برساتی ہے شلینگ کرتی ہے آنسو گیس کے گولے پھینکتی ہے ایک جرمن مفکر کا قول ہے کہ ڈاکٹروں کے ساتھ عوام اور حکومت کا تعلق دوست اور دشمنی جیسا ہے۔ضرورت پڑنے پر دوست اور ضرورت رفع ہونے پر دشمن عوام اور حکومتیں ڈاکٹروں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جوسلوک ان کا خداکے ساتھ ہوتا ہے یعنی مصیبت آنے پر خدا کو یاد کیا،مصیبت ٹلنے کے بعد خدا کو بھول گئے تکلیف کی حالت میں ڈاکٹر کو یاد کیا تکلیف ٹلنے کے بعد ڈاکٹر اور طبی عملے کو بُرا بھلا کہہ دیا یہ بالکل آنک مچولی والا کھیل ہے جو جاری رہتا ہے اس آنکھ مچولی میں ڈاکٹر اور طبی عملہ اکثر حکومت اور عوام کے نشانے پر ہوتا ہے۔اور جب نشانے پر ہوتا ہے تو وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ تکلیف اور مصیبت کے آنے پر ایک بار پھرڈاکٹر کے دروازے پر جانا ہے طبی عملے کی خدمات کا طلبگار ہونا ہے۔زندگی جب خطرے میں پڑجاتی ہے تو بھولے ہوئے خدا کی یاد آجاتی ہے اور دُھتکارے ہوئے ڈاکٹر کے پاس جاناپڑجاتا ہے ڈاکٹر کون ہے؟
یہ وہی شخص ہے جوسکول اور کالج میں سب سے ذہین طالب علم تھا اُس نے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔اُس نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ میں سول سروس،ملٹری سروس،بزنس یا سیاست میں جانے کے بجائے ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کروں گا۔پھر اس نے میڈیکل یونیورسٹی میں داخلہ لیا،ہر امتحان میں امیتازی نمبر لے لئے وہ ایک ڈاکٹر بن گیا پھر اُس نے مزید محنت کی اور سپیشلسٹ کے امتحانات پاس کئے۔ملکی یونیورسٹیوں سے ڈگری لی۔غیر ملکی دانش گاہوں سے ڈگری لی۔پھر ایک سہانی صبح کو اُسے نوکری ملی۔جس دن نوکری ملی اُس دن سے وہ حکومت اور عوام کی نظروں سے گرگیا
دوسرے افیسروں کو5سال بعد ترقی ملتی ہے تو ڈاکٹر کو ترقی کیلئے 13سال یا15سال انتظار کرنا پڑتا ہے ڈاکٹر کوئی مطالبہ کرتا ہے تو حکومت پولیس کے ایس ایچ او کو حکم دیتی ہے کہ ان کو مارو اور اتنا مارو اور اتنا مارو کہ آئیندہ کیلئے توبہ کریں اور کھبی مطالبہ نہ کریں۔عوام کسی بڑے حادثے کے مریض کی وفات پر ڈاکٹروں اور ان کے طبی عملے کے خلاف اپنی بھڑاس نکالتے ہیں مریض اگر تندرست ہوکر اپنے گھر پہنچا تو خدا اور ڈاکٹر کو بھول جاتے ہیں خدانخواستہ مریض نے زندگی کی بازی ہاری تو خدا پر ان کا بس نہیں چلتا ڈاکٹر اور طبی عملے کو جلی کٹی سناتے ہیں نہ خدا کے لئے شکر کا لفظ ان کی زبان پر آتا ہے نہ ڈاکٹر اور طبی عملے کے لئے شکریہ کے کلمات کبھی بھول کران کی زبان پرآتے ہیں۔مجھے کیوبا کے سابق صدر فیدل کاسترو کی ایک تقریر یاد آرہی ہے جو انہوں نے کیوبا کے قومی دن کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کی تھی اُس تقریر میں فیدل کاسترونے اپنی حکومت کی کامیابیوں کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایٹم بم نہیں بنایا،ٹینک اور جنگی جہاز نہیں بنائے،ہم نے انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے والاکوئی کام نہیں کیا۔ہم نے انسانوں کی جان بچانے کیلئے میڈیکل کالج اور ہیلتھ لیبارٹریوں کاجال بچھایادنیامیں جہاں انسانیت پر کوئی آزمائش آتی ہے ہمارا ڈاکٹر اور طبی عملہ وہاں پہنچ جاتا ہے اور انسانیت کی خدمت کا تمغہ سینے پر سجا کر واپس آتاہے۔فیدل کاسترو کی تقریر خالی تقریر نہیں تھی پاکستان میں 2005کا تباہ کن زلزلہ آیا تو کیوبا کے ڈاکٹروں کی ٹیم اپنے ساتھ پورا اسپتال لیکر پاکستان پہنچ گئی۔وہ دن کب آئے گا جب ہم خدا کا شکرادا کرنے والے اور ڈکٹروں کی خدمات کا اعتراف کرنے والے بن جائینگے ہمیں اس دن کا انتظار ہے۔