ریڈیو پاکستان؟
ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی
ریڈیو پاکستان پر سوالیہ نشان ہے؟اور وزارت اطلاعات کے حکام کو اس کا علم نہیں ہے۔پاک فوج جانتی ہے کہ1948،1965اور 1971کی پاک بھارت جنگوں میں ریڈیو پاکستان کے دشمن کے خلاف پاک فوج کے اہم مددگار کا کردار ادا کیا تھا۔آج بھی پاک بھارت سرحد کے ساتھ ملحق علاقوں میں سرحدی باڑ اور پٹی کے دونوں اطراف میں ٹیلی وژن سے زیادہ ریڈیو کو سنا جاتا ہے۔اس لئے دشمن اپنے ریڈیو نشریات پر زور دے رہاہے ہماری طرف سے اس محاذ پر خاموشی طاری ہے۔جو لوگ 1965میں وزارت اطلاعات سے وابستہ تھے ان میں سے بہت ساری شخصیات اب بھی زندہ سلامت ہیں۔ان کو پتہ ہے کہ وزارت اطلاعات میں 3اہم شعبے دشمن کے پروپیگنڈے کا جواب دیتے تھے۔ایک شعبے دشمن کے پروپیگنڈے کا جواب دیتے تھے۔ایک شعبہ محکمہ اطلاعات کا ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ تھا۔دوسرا شعبہ مانیٹرنگ ونگ تھا تیسرا شعبہ ریڈیوپاکستان تھا پھر ایسا ہوا کہ کسی بزرجمہر نے اسلام آباد والوں کو بتادیا کہ ٹیلی وژن دیکھتے ہیں سوشل میڈیا پر مشغول ہوتے ہیں ریڈیو کون سنتا ہے؟اسلام آباد والوں نے یہ نہیں پوچھا کہ کہا ایسا ہوتا ہے؟اگر یہ سوال پوچھا جاتا تو یقیناجواب آتا ہے کہ لاہور،فیصل آباد،ملتان،پشاور،کوئٹہ اورراولپنڈی میں ایسا ہوتا ہے اگلا سوال یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ نیلم ویلی،کھوتی رتہ،بلتستان،سکردو،سیاچن،غلام خان،چمن،چترال اور خیبر کے سرحدی پہاڑی علاقوں میں لوگ کن ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں؟یقیناجواب آتا کہ پاک بھارت،پاک افغان سرحد اور لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف لوگ صرف ریڈیو سنتی ہے۔مزدور اپنی مزدوری کی جگہ پر ریڈیو سنتا ہے۔گھر کے بڑے اور بوڑھے گھر میں ریڈیو سنتے ہیں ریڈیو ہی سب سے موثر ذریعہ ابلاغ ہے۔اس وجہ سے امریکہ نے ٹیلی وژن سے زیادہ اہمیت ریڈیو کو دی ہوئی ہے بھارت نے ریڈیو نشریات پر زیادہ توجہ دی ہے ریڈیو کابل آج بھی موثر ذریعہ ابلاغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ریڈیو سری نگر کو آج بھی دور درشن کے برابر اہمیت مل رہی ہے۔وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز اور معاون خصوصی لفٹننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کو اگربریفنگ دی گئی تو اس بریفنگ کے اہم اجزاء میں 4باتوں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ہوگا۔دونوں اہم شخصیات کو یہ بتایا جائے گا کہ دشمن ہمارے خلاف جو زہریلا پروپیگنڈا کررہاہے اس کا جواب اسلام آباد،کابل اور راولپنڈی سے دہلی کو دیا جارہا ہے۔سرحد کے دونوں طرف رہنے والی آبادی دشمن کا پروپیگنڈا سنتی ہے۔ان کے سامنے ہمارا جواب کھبی پیش نہیں ہوتا۔بریفنگ میں اس بات کا بھی ذکر ہوگا کہ سطح سمندر سے3ہزار فٹ کی بلندی پرہماری سرحد ہو یا14ہزار فٹ کی بلندی پر سرحدی گاؤں واقع ہو۔وہاں کے سماجی حالات ایک جیسے ہوتے ہیں۔وہاں ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا کی رسائی نہیں ہوتی۔ایف ایم ریڈیو کی ٹوٹی پھوٹی غیر مربوط نشریات کے ذریعے دشمن کے پروپیگنڈے کا موثر جواب نہیں دیا جاسکتا۔اس کے لئے1965والے طاقتور اے ایم ریڈیو نشریات کی ضرورت ہوتی ہے۔زمانہ ترقی کررہا ہے تاہم ریڈیو اور ڈاک خانے کی ضرورت اب بھی 1965کی طرح باقی ہے۔بریفنگ میں یہ بھی شامل ہوگی کہ سابقہ ادوارمیں ریڈیو پاکستان کا گلا گھونٹ دیا گیا جس کا فائدہ ہمارے دشمنوں کو ہوا اس کی تفصیل میں جانے کی چنداں ضرورت نہیں صرف دوباتیں کافی ہونگی پاک فوج نے ریڈیو پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کیا،فیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے لیکر جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف تک ہرحکمران نے ریڈیو پاکستان کو اس کا درست مقام دے دیا ان کے ادوار میں ریڈیو کی فنڈ کھبی بند نہیں ہوئے۔ملک کے ادیبوں اور شاعروں نے ریڈیو پاکستان کے پلیٹ فارم سے ہی پاک فوج کا بھرپور ساتھ دیا فیض صاحب کاکلام بھی سب سے پہلے ریڈیو پاکستان کی وساطت سے ہم تک پہنچا۔آخری نکتہ جو وزارت اطلاعات کی بریفنگ میں آئیگی وہ یقینا یہ ہوگی کہ سیکورٹی کے موجودہ ماحول میں ایکسٹرنل پبلسٹی ونگ اور مانٹیرنگ ونگ کو ایک بارپھر 1965کی طرح فعال کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کے زہریلے پروپیگینڈے کا موثر جواب دیا جاسکے۔اس جواب کو سرحد کے دونوں طرف بسنے والے سامعین تک پہنچانے کیلئے ریڈیو پاکستان کے شعبہ پروگرام اور شعبہ انجینئرنگ کے فنڈ بھی بحال کرنے کی ضرورت ہے۔بریفنگ میں یہ بات ضرور آئیگی کہ ریڈیو پاکستان کے شعبہ انجینئرنگ کا فنڈ بند ہونے کے بعد اے ایم چینل بند ہوچکے ہیں۔شعبہ پروگرام کا فنڈبند ہونے کے بعد نئے پروگراموں کی پروڈکشن بند ہوچکی ہے۔اب یہ بات کسی سرکاری بریفنگ کی محتاج نہیں رہی کہ سرحد کے دونوں طرف آل انڈیا ریڈیو کی نشریات سُنی جارہی ہیں اکاش وانی،ریڈیو سری نگر،ریڈیو کابل اور ایران زاہدان کو سنا جارہاہے۔ریڈیو آپ کی دنیا مقبول ہے۔بی بی سی اور وائس آف جرمنی کی شہرت ہے ان کے مقابلے میں ریڈیو پاکستان کی آواز خاموش ہے ایف ایم چینل ریڈیو پاکستان کی جگہ نہیں لے سکتا۔یہ چینل اتنا سستا ہے کہ سوات میں بدامنی پھیلانے والے بدین سے مٹہ اور مینگورہ سے چکدرہ تک4ایف ایم چینل چلاتے تھے موجودہ دور میں اگر وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فراز اور معاون خصوصی لفٹننٹ جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کی توجہ ریڈیو پاکستان کی طرف دلائی گئی تو بعید نہیں کہ دشمن کے خلاف پاک فوج کے شانہ بشانہ خدمات انجام دینے والے ریڈیوپاکستان پرسوالیہ نشان نہیں رہے گا۔یادرہے دشمن کوجس طرح پاک فوج کا خوف ہے اسی طرح ریڈیو پاکستان سے بھی دشمن خوف زدہ ہے۔