کالمز

جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے

تحریر : نیاز نیازی
یہ غالباً دسمبر 2006 کی بات ہے جب ہمارے گاؤں کے ایک طالب علم کسی کیس میں گاہکوچ تھانے کے حوالات میں قید تھے میں سردیوں کی چھٹیاں گزارنے گاؤں آیا تھا جب اس واقعے کا مجھے علم ہوا تو طالب علم کی مدد کے لیے گاہکوچ جانے کا فیصلہ کیا اس وقت میں خود دسویں جماعت کا طالب علم تھا۔ تھانے میں قیدیوں سے ملاقات ہوئی جن میں طالب علم کے ساتھ ان کے والد اور ایک دوسرا شخص بھی پابندِ سلاسل تھا۔ مجھے سب  سے  چھوٹے قیدی کی بہت فکر ہو رہی تھی اور اس کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کا خیال بار بار دل میں آ جاتا۔ کیس اب تھانے سے کوٹ منتقل ہو چکا تھا اور عدالت میں ہی اب فیصلہ ہونا تھا جب تمام حربے ناکام ہوئے تو میں نے قلم کا سہارا لیا اور مختصر کالم بعنوان ” معصوم طالب علم کیوں گرفتار ” کاغذ پر لکھنے کے اخبارات کے دفاتر ڈھونڈنے نکل گیا اس وقت گاہکوچ مین بازار میں ہزارہ ہوٹل کے ساتھ ایک دوکان کے بالائی منزل میں ہفت روزہ صدائے گلگت کا دفتر ہوا کرتا تھا جب میں دفتر پہنچا تو وہاں تالہ لگا ہوا تھا مایوسی کی عالم میں واپس آنا پڑا اور ایک اور دفتر میں کالم ایک سینئر صحافی کو دینے کے بعد گزارش کی کہ جناب اس کو لازمی شامل۔ اشاعت کریں مہربانی ہوگی انہوں نے یقین دہانی کی اور میں دوبارہ صدائے گلگت کے دفتر کی جانب چل پڑا اس دفعہ خوش قسمتی سے راجہ عادل غیاث صاحب اپنی گاڑی سے اتر کر اوپر دفتر جا ہی رہے تھے کہ میں نے بلند آواز میں سر السلام علیکم! کہتے ہوئے آگے بڑھا راجہ صاحب نے مسکراہٹ کے ساتھ سلام کا جواب دیا حال احوال پوچھا, میں نے اپنا تعارف کرایا اور فائل سے کالم نکال کے راجہ صاحب کو پیش کیا انہوں نے مختصر کالم کو وہی پہ مکمل پڑھنے کے بعد میری طرف خوشی بھری نظروں سے دیکھا اور فرمایا کہ بیٹا اگلے ہفتے آپ کا یہ کالم صدائے گلگت میں ضرور چھپے گا میں نے راجہ صاحب کا شکریہ ادا کیا اور واپس گھر جانے کے لیے گاڑی کی تلاش میں اڈے کی طرف چل پڑا۔ ایک ہفتے طویل انتظار کے بعد دوبارہ گاہکوچ آیا اور سب سے پہلے وہ اخبار خریدا جس کے لیے کالم میں نے ایک دوسرے صحافی کو دیا تھا اخبار مکمل دیکھنے کے بعد مایوسی ہوئی وہاں میرا کالم نہیں چھاپا تھا اب فوراً دوسرے اسٹال کا رخ کیا اور وہاں پہنچتے ہی ہفت روزہ صدائے گلگت خریدا اور اپنے مختصر کالم کو فرنٹ پیج پر دیکھتے ہی دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی بے انتہا خوشی ہوئی اور وہاں سے بیس روپے دے کر چار عدد اخبار لینے کے بعد راجہ عادل غیاث صاحب کا شکریہ ادا کرنے ان کے دفتر پہنچ گیا مگر راجہ وہاں موجود نہیں تھے اور یہ قرض مجھ پر اب زندگی بھر باقی رہے گا اس کے بعد کئی مرتبہ راجہ صاحب کے پاس جانے کا ارادہ کیا مگر اللّٰہ کو کچھ اور ہی منظور تھا کہ ہماری دوبارہ ملاقات نہیں ہو پائی۔ آج چند الفاظ اگر جوڑنے کے قابل ہوئے ہیں تو وہ عادل غیاث صاحب کی مرہون منت ہے اگر وہ حوصلہ افزائی نہ کرتے تو شاید لکھنے کا عمل جاری رہتا۔
 کل رات جب فیس بک پر راجہ میر نواز میر صاحب کا پوسٹ پڑھا تو دل دھک سے رہ گیا کہ راجہ عادل غیاث اب ہم میں نہیں رہے۔ خاموش زندگی ! خاموش موت! راجہ صاحب کی علالت کی اطلاع اس سے پہلے کہیں سے نہیں ملی۔ بہر حال موت برحق ہے اور ہر شخص نے مزہ چکنا ہے مگر افسوس کہ راجہ ابھی بہت کچھ کرنا چاہتے تھے پر زندگی نے انہیں مہلت نہیں دی۔ راجہ عادل غیاث گلگت بلتستان کے مستند اور بے باک صحافی تھے آپ نے صحافت کے میدان میں اپنا اہم اور منفرد مقام بنایا تھا اس کے علاوہ راجہ صاحب ایک اچھے کمنٹیٹر بھی تھے آپ ہر پروگرام کی جان ہوا کرتے تھے گلگت بلتستان میں منعقد ہونے والی تقریبات میں آپ کو خصوصی طور پر اسٹیج کی ذمہ دار سونپی جاتی تھی اور راجہ اپنے مخصوص انداز میں ان تقریبات کو چار چاند لگا دیتے۔ شعر و شاعری سے بھی انہیں خاص شغف تھا  اشعار کے ذریعے سامعین کا خوب لہو گرماتے اور ان کی نظامت میں کبھی کوئی بور نہیں ہو پایا۔ آپ ایک اچھے صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن بھی تھے انسانیت کی مدد کو سب سے پہلے پہنچ جانا ان کی عادت تھی اور ان کی آخری سرگرمی بھی لوگوں کی مدد کے متعلق تھی 21مئی 2020ء کو اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر امدادی سامان لیکر بروغل چترال جاتے ہوئے تصویریں لگائی تھیں۔ راجہ صاحب کی اچانک موت نے ضلع غذر کو ایک مرتبہ پھر سوگوار کر دیا ان کی کمی بہت زیادہ محسوس ہوگی مرحوم کی صحافتی, سماجی اور فنی خدمات  دیرپا یاد رہیں گی۔ اللّٰہ تعالیٰ مرحوم کی روح کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور لواحقین کو صبر۔ جمیل عطاء فرمائے آمین
ہاں, اے  فلکِ  پیر !  جواں  تھا  ابھی  عارف
کیا  تیرا  بگڑتا   جو  نہ  مرتا کوئی  دن  اور
جاتے ہوئے  کہتے  ہو  "قیامت کو  ملیں  گے "
کیا خوب ! قیامت کا ہے, گویا, کوئی دن اور

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button