کالمز

سیاحوں کی جنت، گلگت بلتستان

پاکستان کے ارض شمال، مغرب میں واقع کوہ ہائے ہندوکس، قراقرم اور جنوب میں مغربی ہمالیہ کے بیچ میں واقع انتہائی دور افتادہ، پر اسرار لیکن انتہائی دلکش وادیاں ہیں جو آج مملکت خداداد پاکستان کا ایک اہم ترین خطہ گلگت بلتستان سے پکارا جاتا ہے۔ جو کبھی اسے شمالی علاقہ جات سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ قدرت نے اس علاقے کو بیش بہا قدرتی وسائل اور خوبصورت حسن سے نوازا ہے ۔ اس پس ماندہ اور دور افتادہ علاقے کو خدا وند تعالٰی نے جہاں قدرتی مناظر سے، مہیب گلیشیروں ، ابشاروں بہتے دریاوں ، قدرتی جھلیں ،چار موسم اور بلند و بالا کوہسار سے نوازا ہے وہاں یہاں کے باسیوں کو چند فطری خوبیوں اور قدرتی انسانی اقدار اور اخلاق اور انوکھی طرز معاشرت سے بھی نوازا ہے۔غالبا اس کی تمام تر وجہ قدرتی ماحول، آب وہ ہوا اور فطری نظام ہے۔

پاکستان کے شمالی علاقے سیاحوں کی جنت کہلائے جاتے ہیں۔اس حوالے سے گلگت بلتستان کا علاقہ ان تمام علاقوں میں خاص طور پر مشہور اور قابل دید ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اور کوہ پیما اس علاقے کا رخ کرتے ہیں اور اس کی مسحورکن خوبصورتی کے اسیر ہوجاتے ہیں۔ یہاں خوش نما نظارے، جھلیں،اونچے پربت اور گلیشئر ان کا استقبال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے تین بڑے پہاڑی سلسلوں میں ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ میں موجود کےٹو، نانگا برکت اور راکاپوشی کو سر کرنے کی کوشش میں دنیا بھر کے سیاح اور کوہ پیما اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔ایک ایسا دلکش مقام جو تمام سیاحوں کو اپنی مائل کرتی ہے ان میں مقامی، قومی اور بین الاقوامی تمام سیاح گلگت بلتستان کی قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔

قدرتی حسن سے مالامال خطہ گلگت  بلتستان جس میں قدرتی معدنیات، مختلف قسم کے فصلیں،میوے اور پھل اپنی مثال اب ہے۔ان اونچے اور برف پوش پہاڑوں میں اعلٰی قسم کے  جانور اور پرندے بھی پائے جاتے ہے اس کے علاوہ گلگت بلتستان کے ٹروٹ مچھلیاں جو تمام سیاحوں کے لیے کسی نمونے سے کم نہیں جو تمام ممالک کے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لاتی ہے۔

تاریخی اور جغرافیائی عتبار سے بھی گلگت بلتستان بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ علاقہ ہندوستان کے لئے یہ وسط ایشیا کا صدر دروازہ ہے اور جہاں اس زمانے میں تین عظیم طاقتوں برطانیہ، روس اور چین کی سرحدیں ملتی ہے۔ علاوہ ازیں ہندوکش سے لے کر شمشاد تک درے بھی ہیں جہاں جہاں مختلف دریاؤں کے منبع ہیں۔ انہی دروں سے گلگت اور معاون دریا نکلتے ہیں۔ وادی گلگت کی اہمیت اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

لیکن بدقسمتی سے کروناوائیرس وبا کی وجہ سے جنت نظیر وادیاں کئی مہینوں سے سیاحوں سے خالی نظر آرہے ہیں، گلگت بلتستان کے تمام سیاحتی جگہیں سیاحوں کو خوش آمدید کے لیے بے تاب نظر آرہے ہیں۔ وہ رونقیں جو کچھ مہینے پہلے نظر آرہے تھے انکو بحال کرنے کے لیے گلگت بلتستان کا Tourism Industry بے قرار ہے۔

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان میں ٹوریزم انڈسٹری ایک منافع بخش انڈسٹری ہے جس کی سلانہ آمدنی کروڑوں میں ہیں۔ پاکستان سمیت گلگت بلتستان کے زیادہ تر افراد کا ذریعہ معاش کا دارومدار سیاحت پر انحصار ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے  کرونا وائرس کی وجہ سے سیاحوں کی نقل و حرکت پر پابندی کی وجہ سے گلگت بلتستان میں اس شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کا معاشی نظام بھی ابتر ہوتی جارہی ہے جس کی وجہ سے فاقہ کشی کی نوبت آئی ہوئی ہیں ۔

ان حالات کے پیش نظر وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے گلگت بلتستان اور کے پی کے،  کے حکام سے سیاحت کا شعبہ ایس او پیز کے ساتھ کھولنے کا فیصلہ کیا ہے جو خوش آئند بات ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ایسے افراد جنہوں نے کروڑوں روپے خرچ کر کے ہوٹلوں کا بندوبست کیا تھا اور یہ ہوٹلز کئی مہینوں سے بند پڑے تھے جس کی وجہ سے ان کو کروڑوں کا نقصان ہوا ہے۔گلگت بلتستان حکام ایس او پی پر عمل درآمد کروا کے سیاحتی شعبے کو مکمل کھول دے تاکہ اس شعبے سے وابستہ افراد کا معاشی نظام بھی چل سکے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button