ایک طوطا ہی تو تھا صاحب
تحریر: ذیشان عالم
طالب علم قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی گلگت بلتستان
نیلسن منڈیلا کی اس بات اپنی تحریر شروع کرتا ہوں ۔ہمارے بچے چٹان کے مانیند ہے جس کے اوپر ہماری مستقبل کی عمارت کھڑی ہے ۔ہماری قوم کے اہم اثاثے ہے ۔یہ ہمارے قوم کے مہمار ہے اور یہ بچے ہمارے قوم کے اہم سرمایہ ہے جو اپنے بچوں کی اچھی نشوونما کرتا ہے وہ اپنے قوم کے بچوں اور لوگوں کی اچھی نشوونما کرتا ہے ۔خیر یہ بات بہت اہم اور دلچسب ہے۔حققتَا بچے کسی قوم کے اہم اثاثے ہوتے ہے۔اسطرح پاکستان مہیں بھی بچوں کو اہک اہم مقام حاصل ہے اور ان بچوں کو بہت اولين مقام پر رکھنا کی تلقين کی ہے ۔اور دنیا کے ہر مذاہب مہیں بچوں کے حقوق کی تحفظ کی بات کی ہے ۔جب ہم پاکستان کے نظام کے اوپر نگاہ جماتے ہے ۔تو یہ پاکستان کے ہر بچے کی زندگی کے اوپر نظر ڈاے تو ہماری ظاہری آنکھ بند ہو جاتی ہے اور ہمارے خیالات لفظ انسانیت کی پہلو پر آ کر پھنس جاتی ہے ۔جب ہمارے بچوں کے مستقبل اور اُن کے زندگیوں کے ساتھ برُا ہوا دیکتھے ہے ۔جب ہمارے بچے ہنستے کَھلتے ہوے سکولوں کی طرف نکلتے ہےتو ان کےبارے مہیں پتہ ہی نہیں کی وہ خیرتی سے گھر اتے ہے بھی نہیں ۔ یہ نہہیں بلکی زیاتی کر نے واے آدم خور اور درنندے ان کے جسم کو نچوڑنے کے انتظار مہیں ہوتے ہے اس طرح ایک گزشتہ روزراولپنڈی میں میاں بیوی نے اپنے گھر پر کام کرنے والی 8 سالہ معصوم بچی زہرہ شاہ کو صرف اس لئے قتل کر دیا کیونکہ اس نے غلطی سے اس پنجرے کا دروازہ کھلا رہے گیا تھا جس سے ان کا پالتو طوطا اڑھ گیا ارے میں پوچھتا ہوں ایک طوطا ہی تو تھا صاحب اس بچی کی زندگی سے تو قیمتی تو نہ تھا ایک پرندے کے اڑھ جانے سے ایک انسان کا قتل کردیا شیطان کا کام ہوسکتا ہے کسی انسان کا نہیں ۔ سننے میں آرہا ہے صرف اس بچی کو تشدد کر کے قتل نہیں کیاریاں بلکہ ان کے ساتھ جنسی زیادتی بھی کی گئی صرف 8 سال عمر تھی اس پھول کی میں سوچتا ہوں جب اس نے خدا کی بارگاہ میں پیش ہوکر اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی کہانی سنائی ہوگی تو اس پروردگار کا عرش تک ہل گیا ہوگا اس موقع پر اگر آسمان سے پتھر برسے اور موت کی آندھی چلے تو تعجب مت کرنا اس ظلم سے اس دھرتی پر خون نکلے اور سمندر کا پانی سرخ ہوجائے تو حیران مت ہونا۔ جس معاشرے میں لوگ اپنے نیچے کام کر کے رزق حلال کمانے والے مزدور کو ایسے کچل دیتے ہیں وہاں کے رہنے والوں کی دعائیں بے اثر ہوجاتی ہیں جہاں معصوم کلیوں کو کھل نے سے پہلے روند دیا جاتا ہے وہاں عذاب نازل ہوتا ہے جو آج وباء کی شکل میں نظر آرہا ہے
یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ آئے روز ایسے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں بچوں ہر تشدد اور زیادتی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے دس سالہ خدیجہ یاد ہے جس کے ہاتھ اور پاؤں باندھ منہ پر دوپٹہ دے کر تشدد کرکے زیادتی کے بعد قتل کردیا تھا لاہور کی سولہ سالہ عظمی یاد ہے جسے سر پر برتن مار مار کر قتل کردیا تھا اور لاش ایک نالے میں پھینک دیا گیا تھا پشاور کی آٹھ سالہ نور یاد ہے جس کا غلہ دبا کر مار دیا گیا تھا اور اس کی لاش پانی کی ٹینکی سے ملی تھی اسلام آباد میں دس سالہ فرشتہ نامی لڑکی یاد ہے جس کی لاش شہزاد ٹاؤن کے قریب ایک جنگل سے برآمد ہوئی تھی جسے قتل کرنے سے پہلے جنسی حوس کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ شیخوپورہ کی لائیبہ یاد ہے جسے ایک بااثر شخص نے گھر میں گھس لیا تھا نا جانے کتنی معصوم کلیاں ایسی ہے جو حوس پرستوں کی حوس کا شکار ہو کر بےدردی کے ساتھ قتل کردی گئی اب یہ آٹھ سالہ زہرہ شاہ۔ گڑیا سے کھیلنے کی عمر تھی اس کی گڑیا کی ۔ جب اسے خون کھار ،بدکردار بھیڑیے نے نگل لیا،پیٹ بھر کے کھالیا،نوچ کر حوس بھی پوری کرلی اور خون پی کر پیاس بھی بجھالی۔ ایک غریب کی بیٹی تھی نا صاحب انصاف ملے یا نہ ملے کیا فرق پڑتا ہے کوئی آئے گا لاش کی بھولی لگا کر غریب شہر کا منہ بند کردیگا۔ خدایا تیری دھرتی پر انسانی جان کی قیمت تو جانوروں سے بھی سستی ہوگئی۔ میرا سوال ان ماں باپ سے جو چند ٹکوں کی خاطر اپنے معصوم بچوں کو دوسرے کاروں میں کام کرنے بیجھ دیتے ہیں اگر پرورش نہیں کرسکتے تو پیدا کس لئے کرتے ہو کیا اس لئے جنم دیتے ہو کسی جاگیردار اور وڈیرے کے گھر میں کام کر کے تمھارا پیٹ بھر سکیں چائیے اس کے لئے اس کو اپنی عزت اور جان دونوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ تم کیسے ماں باپ ہو جو نابالغ بچوں کو دوسرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہونگے کھلا نہیں سکتے ہو تو جنم دے کر سزا کیوں دیتی ہو کاش کوئی ان ماں باپ کے گریبان پکڑھ کر پوچھے تو پچوں کو اس لئے پیدا کر دیتے ہو تاکہ عیاشیوں اور دولت مندوں کے محلوں اور ڈھیروں پر کام کر کے ان کی ضرورتیں پوری کرسکیں۔ کاش انصاف کی ڈوری کی آنکھوں پر باندھی کالی پٹی اتار کر اس کو ان معصوم بچوں کا چہرہ دیکھا سکیں جنہیں جاگیرداروں اور وڈیروں کے سکون اور سرور کے لئے بھیڈ چڑھا دیا گیا۔
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے
خداوند جلیل ومعتبر، داناوبینا،منصف و اکبر
ہمارے ملک میں اب جنگلوں کا دستور نافذ کر
لکتی نہیں ہے آہ کیوں مظلوم کی صدحیف
میت پری ہے امت مرحوم کی صد حیف
نصر ہے موت بچی کی انسانیت کی موت
طوطے کے بدلے جان لی معصوم کی صدحیف
آخر میں، میں اس ملک کے بااثر افراد صدر پاکستان، وزیراعظم پاکستان، آرمی چیف اور چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتا ہوں خدا کے لئے اس ملک سے چائیلڈ لیبر کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات کریں ۔ نابالغ بچوں کے ساتھ ہونے والے جرم اور جنسی زیادتی کے ساتھ قتل کا نوٹس لیں۔ان وڈیروں اور جاگیرداروں کو موت پر سلادیں جو دولت اور طاقت کے بلبوتے پر غریب کا منہ بند کردیتے ہیں جو اپنی حوس پوری کر کے لاش کی بھولی لگاتیں ہیں اور پھر باعزت بھری ہوجاتے ہیں ماں باپ سے اپیل کرتا ہوں خدا کے لئے رحم کھائیں اپنے بچوں پر اگر پیدا کرتے ہوئے تو زمہ داری بھی اٹھائیں، اپنے بچوں کو کسی کے رحم و کرم پر مت چھوڑیں ورنہ کل خدا کے بارگاہ میں جواب دینا ہوگا اس دنیا میں انصاف پیسے اور طاقت سے خریدا جاسکتا ہے مگر وہاں اللہ کے سامنے کیا جواب دوگے وہاں تمھاری پیسے ، طاقت اور ظلم کا پورا پورا حساب لیا جائے گا