” آغا صاحب! ایک کرم مجھ پر بھی”
فیض اللہ فراق
بدقسمتی سے گلگت بلتستان کی تاریخ تلخ رویوں پر مبنی ہے۔ روز اول سے یہاں نفرتوں کی کاشت کاری ہوئی ہے، مذہبی تفرقات کا علم بلند رکھا گیا ہے اور بعض ادوار کشت و خون سے عبارت ہیں۔ مذہبی قیادت کی نا سمجھی اور انانیت کی جنگ بعد اوقات خون خرابے میں بھی بدلتی رہی ہے جس کا سارا نقصان گلگت بلتستان کا ہوا ہے۔ ایک دوسرے کو فتح کرنے کی ناکام روش نے یہاں کدورتوں کو فروغ دیا ہے، رشتوں کی زنجیروں کو توڑا ہے اور ثقافتی روابط کو برباد کیا ہے مگر نتیجہ آج تک تباہی کے سوا کچھ نہیں نکلا ہے۔ 1970 کی دہائی سے جاری کشمکش نے گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے ذہنوں کو بھی پراگندہ کیا ہے اور ایک نہ ختم ہونے والی انتقام کی جنگ ہماری رگوں میں سرائیت کر گئی ہے۔ گلگت بلتستان کے در و دیوار ہماری کوتاہیوں سے عبارت ہیں۔ ہماری غیر سنجیدگی ہماری سوچ پر بھاری ہے۔ ہمارا دہرا معیار ایک مظبوط اور با اختیار نظام کے رستے میں رکاوٹ ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ آج بھی اس دھرتی کا باسی با اختیار نہیں ہے۔ یہاں کے فیصلے کون کرتا ہے یہ معلوم نہیں ہے؟ اور ہم ستر برسوں سے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے میں مصروف ہیں۔ ہم اپنی جڑیں خود کمزور کر رہے ہیں، ہم نے تاریخ کے ہر موڑ پر اپنی ناموس کا سودا کیا ہے۔۔۔ ہم فروخت بھی ہوتے ہیں مگر سستے داموں میں۔۔۔ ہم شعیہ اور سنی کی جنگ لڑتے ہیں گلگت بلتستان کے مفادات اور اختیارات کی جنگ لڑنا ہمیں آج تک نصیب نہیں ہوا ہے۔۔ ہر سیاسی اور عدالتی عہدے کو ہم فرقے کے کوٹے میں تولتے ہیں جس وجہ سے آج تک خطے میں میرٹ پر تقرریاں نہیں ہوئیں ہیں۔۔۔ ہم نے شیعہ جج، سنی جج، شعیہ وزیر اعلی اور سنی وزیر اعلی تو پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں مگر انصاف کی کرسی پر کسی بھگوان داس کو جنم نہیں دے سکے ہیں۔۔۔ ہم کنٹرولڈ زبان بولنے کے عادی بن چکے ہیں۔۔۔ ہم چاپلوسی کا امتحان اعلی نمبروں سے پاس کر چکے ہیں۔۔ ہم اپنی بولی بولنے سے گریزاں ہیں۔۔ چارسو گھٹن ہے۔۔۔ افراتفری ہے اور بے وقعت لوگوں کا ایک ہجوم ہے جہاں حق اور سچ کی تفریق نہیں۔۔۔ انصاف کا کوئی معیار نہیں۔۔بس! ایک پٹی پڑھائی گئی ہے جسے طوطے کی طرح رٹ رہے ہیں مگر نتائج سے بے خبر ہیں کہ ہماری غیر سنجیدگی سے خطے کا کتنا نقصان ہو رہا ہے اور دلوں میں کتنی کدورتیں بڑھتی ہیں۔۔۔ ہمیں احساس ہونا چاہئے کہ اس مٹی کا ہر فرزند ہمارے لئے لائق احترام ہے۔۔۔ ہمارا نفع و نقصان سانجھی ہے۔۔ ہم صدیوں سے ساتھ رہے ہیں اور قیامت تک آنے والی نسلیں بھی ساتھ رہیں گی۔۔ آنے، جانے والے ہمارے مفادات کے محافظ نہیں اور نہ ہی ہماری نسلوں کی پرورش کے ذمہ دار ہیں۔۔ باہر سے کوئی آ کر ہمیں ٹھیک نہیں کر سکتا ہے، ہمیں خود درست ہونا پڑے گا۔۔ ہمیں ایک دوسرے کا احترام کرنا پڑے گا اور ایک دوسرے کیلئے اپنے دلوں میں جگہ دینی ہوگی۔۔ گزشتہ دنوں سے نگران حکومت پر دونوں مذہبی طرفین کی جانب سے بننے والی فضا افسوس ناک ہے۔۔ آخر میں میری ایک التجا ہے آغا صاحب سے کہ وہ میری مخالفت میں بھی کوئی تقریر کریں تاکہ مجھے بھی کوئی عہدہ مل جائے۔۔۔