کالمز

کرونا ایمرجنسی میں ہلال احمر گلگت بلتستان کا کردار

تحریر: لطف اللہ

گلگت بلتستان ان دنوں کرونا وائرس کی شدید لپیٹ میں ہے جو قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے ذریعہ معاش کو بھی شدید نقصان پہچنانے کا سبب بن رہا ہے۔ یہ وائرس گزشتہ سال کے آخری ماہ چین کے شہر ووہان میں پیدا ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے چند مہینوں کے اندر اندر دنیا کے کونے کونے تک پھیل گیا۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق دنیا بھر میں تادم تحریر اس وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ 32 لاکھ جبکہ اموات کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد ہے۔

پاکستان میں اگرچہ یہ وائرس فروری 2020 کے آخر میں آیا مگر پھیل جانے میں کوئی دیر نہیں ہوئی۔ پاکستان میں تاحال کرونا وائرس کے کل 213417 کنفرم کیسز اور 4133 لوگ ابھی تک اس وائرس کا شکار ہوکر زندگی کی بازی ہار گئے ہیں۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں کرونا وائرس کی سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 1489 جن میں سے 335 ایکٹیو کیسز،26 اموات اور 1128 لوگ اس وائرس کو شکست دینے میں کامیاب کامیابی کے بعد صحت یاب قرار پائیگئے ہیں۔ گلگت بلتستان میں سابق صوبائی وزیر حاجی جانباز خان، سابق سپیکر حاجی ملک مسکین، ڈاکٹر اسامہ ریاض سمیت بہت سے ہنستے کھلتے چہرے خواب کی مانند موت کی نیند سو گئے اور نہ جانے مزید کتنے لوگ اس وائرس کا شکار ہوکر لقمہ اجل بن جائیں گے۔ کرونا وائرس کی اس وبا سے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنیوالا طبقہ متاثر رہا۔ چاہے وہ براہ راست وائرس کا شکار ہونے کی صورت میں ہو یا بالاواسطہ طورپر معاشی نقصان یا دیگر مسائل کی شکل میں۔ مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے انسانیت پسند ادارے اور افراد نے اس وبا کے دنوں میں مختلف قسم کے مسائل سے دوچار افراد کی مدد میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیکر مشکل گھڑی میں دوسرے انسانوں کو تنہائی کا احساس ہونے نہیں دیا۔

ہلال احمر گلگت بلتستان کا شمار ایسے ہی اداروں میں ہوتا ہے جو نہ صرف کرونا وائرس کی اس وبا بلکہ کسی بھی قسم کی آفت میں یہ ادار انسانی خدمت کے جذبے کا علم بلند کئے صف اول میں کھڑا ہوتا ہے۔ ہلال احمر گلگت بلتستان سے میری کافی پرانی تعلق داری ہے۔ یہ کوئی این جی او یا کوئی سیاسی اور مذہبی تنظیم نہیں بلکہ حکومت کا ایک معاون ادارہ ہے جس کی بنیاد خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے رکھی تھی۔ قومی سطح پر صدر پاکستان اس ادارے کے صدر جبکہ صوبائی سطح پر گورنر گلگت بلتستان بلحاظ عہدہ ہلال احمر کے صدر کہلاتے ہیں۔ ہلال احمر کا چیئرمن جو ادارے کا سی ای او بھی کہلاتا ہے۔ چیئرمین کے ساتھ وائس چیئرمین اور ایک مشاورتی کمیٹی بھی ہوتی ہے جو ادارے کے مجموعی معاملات اور پالیسی سازی میں مختار کل ہے۔

گلگت بلتستان میں ہلال احمرکے چیئرمین سنیئرصحافی، تجزیہ نگار اور معروف سماجی شخصیت محترم طارق حسین شاہ ہیں۔ ان کی تعیناتی سے قبل گلگت بلتستان میں یہ اہم ادارہ ناتجربہ کار اور نااہل انتظامیہ کے سبب علاقے میں اپنا وجود کھونے کے خطرے سے دوچار تھا۔ مگر جونہی انھوں نے اس ادارے کی بھاگ ڈور سھنبالی تو بہت مختصر عرصے میں اسے نہ صرف وجود کے خطرے سے بچا لیا بلکہ گلگت میں ایک کمرے تک محدود ہلال احمر کا نیٹ ورک وسیع کرتے ہوئے سکردو، شگر، گانچھے، استور، ہنزہ، نگر، غذر اور دیامر میں بھی مختلف منصوبوں کے ذریعے ادارے کا جال بچھا دیا۔ ان منصوبوں میں شگر ویلی میں جرمن ریڈکراس کے تعاون سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور قدرت آفات سے نمٹنے کا منصوبہ اور نگر میں ڈینش ریڈکراس کے تعاون سے قدرتی آفات سے نمٹنے اور عوامی فلاح وبہبود کی متعدد سرگرمیوں پر مشتمل منصوبے اور گلگت میں ہلال احمرکے صوبائی ہیڈکوارٹر کے لئے سرکاری اراضی کی فراہمی انتہائی قابل غور تھے۔ ابھی ان منصوبوں کے ثمرات عوام تک پہنچنا شروع ہوئے تھے کہ ادارے کے چند سابق ملازمین انہیں عدالتوں کے چکر میں پھنسا کر اصل ذمہ داری سے توجہ ہٹادینے کی سازشوں میں سرگرم ہوئے۔ اس دوران گلگت بلتستان کی عدالت عالیہ کے حکم پر وہ اپنے عہدے سے دستبردار ہوئے۔ جس پر اس وقت کے گورنر گلگت بلتستان کی جانب سے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کی گئی۔ جس کی روشنی میں ڈیڑھ برس بعد طارق حسین شاہ گزشتہ سال اکتوبر میں دوبارہ بطور چیئرمین ہلال احمر گلگت بلتستان کے بذریعہ عدالتی حکم عہدے پر بحال ہوئے۔ تاہم وہ اپنی کچھ نجی مصروفیت کے باعث اسی وقت ہی اپنے عہدے کا دوبارہ چارچ سھنبال نہیں سکے۔ مصروفیت سے فراغت کے بعد یکم جنوری 2020 سے انہوں نے باضابطہ طورپر چیئرمین ہلال احمرگلگت بلتستان کی کرسی سھنبالی تو ادارہ مکمل طورپر دیولہ پن کا شکار ہوچکا تھا۔ سکردو، استور، شگر،گانچھے، غذر،دیامر، نگر ہر جگے سے ادارے کے دفاتر اور منصوبے قبل از وقت بند ہوچکے تھے اور پچاس سے زائد ملازمین میں سے صرف سات ملازمین باقی رہ گئے تھے۔ اس کے باوجود انھوں نے ہمت نہ ہاری اورسخت محنت اور جانفشانی سے کام کو اپنا شعار بناتے ہوئے پھر سے ادارے کو اوپر اٹھانے کی ٹھان لی۔ ابھی طارق حسین شاہ نے گلگت میں ہلال احمر کی مستقل عمارت، پچاس بیٹ ہسپتال، فرسٹ ایڈ سنٹر سمیت تمام اضلاع میں ادارے کے ضلعی دفاتر کے قیام کے لئے حکمت عملی مرتب کی تھی کہ اچانک کرونا وائرس کی وبا پھوٹ کر ان تمام منصوبوں کو کھٹائی میں ڈال دیا۔ طارق حسین شاہ کی کاوشوں سے اس سے پہلے رواں سال ضلع گلگت، استور اور سکردو کے مخلتف علاقوں میں آنے والے زلزلے سے متاثرہ ایک ہزار سے زائد خاندانوں میں سات کروڑ سے زائد کی امدادی اشیا تقسیم کی گئی جس پر انہیں حکومت گلگت بلتستان، متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ، سیاسی وسماجی حلقوں اور عوام الناس کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی۔ ابھی زلزلہ متاثرین کی امدادی سرگرمیوں سے فراغت نہیں ملی تھی کہ کرونا ایمرجنسی کی سرگرمیوں شروع ہوگئیں۔

کورونا وائرس ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے ابتدائی دنوں میں ہلال احمرگلگت بلتستان کے پاس کوئی وسائل نہیں تھے۔ مگر ادارے کے باہمت چیئرمین نے کمال ذہانت سے اپنے نام پر بینک سے قرضہ لیکر ادارے کے سٹاف اور رضاکاروں کی مدد سے کرونا وائرس سے متعلق شعور واگاہی اور عوامی فلاح وبہبود کی دیگر سرگرمیاں شروع کردیں۔ ان سرگرمیوں میں محلوں اور گاوں کی سطح پر لوگوں میں کرونا وائرس سے بچاو کی شعوری مہم، ماسک، سنیٹائرز،حفاظتی دستانے، ہائیجئن کا سامان وغیرہ تقسیم کرنا شروع کیا۔ انہوں نے گلگت بلتستان میں مریضوں اور میتوں کی بہتر ٹرانسپورٹیشن کی غرض سے اپنے محدود وسائل کے باوجود ایک ایمرجنسی ایمبولینس سروس کا اجرا کیا جس کے تحت تین ایمبولینسز بیک وقت مختلف ہسپتالوں میں عوام الناس کی خدمت پر معمور ہیں۔ علاوہ ازیں طارق حسین شاہ نے صوبائی حکومت اور انتظامیہ کے تعاون سے بھی متعدد منصوبوں پر کام کا آغاز کیا تو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہلال احمرگلگت بلتستان کی سرگرمیوں کی بھرپور پذیرائی ہوئی۔ اس اعتماد سے فائدہ اٹھاتے ہوئیانھوں نے فوراً ہلال احمر کے نیشنل ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا جہاں پر انہوں نے ہلال احمر کے علاوہ، چینی ریڈکراس، ترکش ریڈکراس، بین الاقوامی کمیٹی برائے ریڈکراس اور دیگر اداروں سے بڑے پیمانے پر مخلتف صورت صورتوں میں امداد لینے میں کامیاب ہوگئے۔ اس امداد میں کھانے پینے کے پیکیجز، ہائیجین کٹس، این 95 ماسک، سینٹائزرز، دستانے، حفاظتی کٹس وغیرہ کی ایک بڑی کھیپ لاکر۔ کھانے پینے کی اشیا عید کے دنوں میں انہتائی نادار اور ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کی جبکہ ماسک، حفاظتی کٹس وغیرہ مخلتف اضلاع میں ڈاکٹروں اور طبی عملہ کے علاوہ عوام الناس میں بھی تقسیم کروائیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے آئی سی آر سی کی مدد سے حالیہ دنوں ایک ہزار سے زائد مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد میں موبائل اور انٹرنیٹ کے بیلنس کارڈ تقسیم کئے جن کو لاک ڈاون کی وجہ سے روابط کی بحالی اور دیگر فرائض انجام دہی میں مشکلات کا سامنا تھا۔ ان میں خصوصی افراد، اقلیتی برادری، طلبا وطالبات، صحافی برادری ودیگر لوگ شامل تھے۔ اس کے علاوہ بھی طارق حسین شاہ ادارے کی تعمیروترقی اور عوام الناس کی فلاح وبہبود کے متعدد منصوبوں پر کام کررہے ہیں جن کے ثمرات بہت جلد عوام الناس کو دیکھنے کو ملیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہلال احمر گلگت بلتستان اور طارق حسین شاہ اور اسکی ٹیم کو دن دگنی رات چگنی ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button