کالمز
موبائل فون،وقت کی بڑی ضرورت
امیرجان حقانی
میں نے 2007 میں موبائل خریدا تھا، تب جامعہ فاروقیہ کراچی میں موبائل پر شدید پابندی تھی. اساتذہ کرام اچانک کلاسوں میں چھاپے مارلیتے اور موبائل ضبط کرلیتے. میرے اساتذہ کرام سے اچھے تعلقات تھے اس لیے سب کو معلوم تھا کہ میرے پاس موبائل ہے. اساتذہ کرام فون بھی کرتے اور میں ان کے پاس پہنچ جاتا.
درجہ سادسہ معہد کی بات ہے. اچانک اساتذہ کا گروپ ناظم تعلیمات صاحب کی معیت میں ہماری کلاس میں آ دھمکا. ہمارے دوست اور استاد مفتی عبدالواحد صاحب چلاسی بھی گروپ میں تھے. وہ جامعہ کے نائب ناظم بھی تھے. ان کو پتہ تھا کہ میرے پاس موبائل ہے. انہوں نے میری خوب تلاشی لی، پھر جاکر میری ڈیکس کو خوب ٹٹولا مگر کچھ ندارد. استاد افشانی صاحب نے ان سے پوچھاکہ:
کیا مسئلہ ہے؟.
مفتی عبدالواحد صاب نے کہا استاد جی! ان کے پاس موبائل ہے. استاد جی میرے طرف دیکھنے لگے تو عرض کیا.
استاد جی مجھے پتہ تھا چھاپہ لگنے والا ہے اس لیے جامعہ سے باہر چھوڑ کر آیا ہوں.حالانکہ موبائل ایک مخصوص جگہ میں چھپا رکھا تھا یعنی نوگوایریا میں کہیں. اساتذہ وہی سے چلے گئے.
دورہ حدیث کے سال(2010) پھر اچانک اساتذہ نے کلاس کو گھیر لیا. مجھے بیس منٹ پہلے کسی استاد نے مسیج کیا تھا. اپنی خیر مناؤ، اب چھاپہ لگنے والا ہے. فوری طور پر موبائل کی سم نکالی. بیٹری الگ کردی اور بخاری میں دبا دی.اور موبائل رومال میں باندھا، ہاتھ میں پکڑا اور لائن میں لگ کر باہر نکل آیا. اساتذہ دروازے پر کھڑے تھے.طلبہ کی تلاشی لے رہے تھے. مفتی عبدالواحد صاب نے خوب تلاشی لی بلکہ زبردست تلاشی یعنی ہرجگہ دیکھ کر اطمینان کرلیا، مگر موبائل کہیں ہاتھ نہ آیا . نہ ملنے پر پوچھ گچھ شروع کیا. استاد عبدالعظیم صاحب نے پوچھا کہ:
کیا مسئلہ ہے.؟
مفتی صاحب کہنے لگے کہ ان کے پاس موبائل ہر وقت ہوتا ہے. اب نہیں مل رہا.استاد عبدالعظیم نے خفگی کا اظہار کیا اور یوں میری جان بخشی ہوئی. میں اپنا موبائل ہاتھ میں لیے کینٹین میں چائے پینے چلا گیا. چونکہ مفتی عبدالواحد صاحب کو کئی بار فون کرچکا تھا. اور جن اساتذہ سے طالبعلمی کے دوران فون پر اکثر بات ہوتی ان میں استاد محترم ابن الحسن عباسی، استاد ولی خان المظفر، استاد عبداللطیف المعتصم، استاد حبیب زکریا،استاد عزیز الرحمان العظیم، استاد منظور یوسف ، استاد نورالمتین ، اور مفتی عبدالسمیع ، خادم الرحمان وغیرہ تھے. استاد محترم نورالبشر صاحب کو تو کلاس میں موبائل نکال کر کسی کا نمبر بھی دیا تھا. ایک دفعہ درجہ سادسہ معہد میں ان کے کلاس فیلوو، اپنے چچا مولانا موسی ولی خان کا نمبر بھی دیا تھا. استاد جی ہنس کر کہنے لگے:
کلاس میں موبائل لانا منع ہے.
پھر جب خود استاد بنا تو موبائل چھیننے سے گریز کیا. مجھے اپنا وقت اچھی طرح یاد تھا. ہاں استعمال میں احتیاط کی تلقین ضرور کرتا . سات سال جامعہ نصرۃ السلام گلگت میں رہا. کھبی موبائل نہیں چھینا کسی طالب علم سے. اور ڈگری کالج میں بھی نہیں چھینا.
وقت نے بری طرح پلٹا کھایا اور آج حالت یہاں پہنچی کہ
تعلیم کا سارا نظام موبائل میں فٹ ہونے جارہے ہے..
کالج یونیورسٹی کے ایڈمیشن فارم میں باقاعدہ پوچھا جارہا کہ
موبائل فون ہے؟
واٹس ایپ استعمال کرتےہیں؟
ہمارے پرنسپل پروفیسر محمد عالم صاحب کالج میں طلبہ پر سخت پابندی لگاتے کہ وہ موبائل ساتھ نہ لائے.. خود کلاسوں میں چکر لگاتے،نگرانی کرتے، جو طلبہ موبائل کیساتھ کھیل رہے ہوتے ان کو اٹھا کر دفتر لے آتے اور تنبیہ کرتے. ہمیں بھی تلقین کرتے کہ موبائل پر بچے لگے رہتے ہیں نظر کریں.میں طلبہ سے یہی کہتا کہ کسی بھی وقت پرنسپل صاحب آ سکتے ہیں. اپنے موبائل کا خود خیال رکھو.
مگر اب کالج خود ترغیب دے رہا ہے کہ بچوں کے پاس موبائل ہو تاکہ ویڈیو لیکچر سن سکیں. پچھلے سال محکمہ ایجوکیشن گلگت بلتستان نے اساتذہ کو حکم دیا کہ طلبہ کے واٹس ایپ گروپ بناکر باقاعدہ رہنمائی اور تدریس کا سلسلہ جاری رکھو. میرے طلبہ کے دو گروپس ہیں.اور اسی طرح پاکستان کی یونیورسٹیاں باقاعدہ ان لائن سلسلے شروع کر چکی ہیں. وہ تمام سلسلے موبائل کے بغیر ممکن نہیں.
دینی مدارس و جامعات بھی آہستہ آہستہ اس طرف آرہے ہیں. اور تعلیمی سسٹم کو ان لائن کرنا چاہ رہے ہیں. آج دینی مسائل و تعلیمات کے ہزاروں واٹس ایپ گروپ ہیں جہاں بروقت مسائل، کتب اور علماء و اساتذہ کے دروس شیئر کیے جاتے ہیں اور بہترین کتب و مضامین بھی.وفاق المدارس کے تمام اعلانات، فیصلے اور بیانات فورا موبائل میں شیئر ہوکر کروڈوں لوگوں تک پہنچ جاتے.
بہر صورت کل تک جو چیز شجرممنوع سمجھی جاتی تھی، شیطان کا آلہ سمجھا جاتا، آج شدت کیساتھ اس کی ضرورت محسوس کی گئی ہے.
شاید کل یہ موبائل عیش پرستی میں آتا آج شدید ترین ضرورت بن گیا ہے. اب کوئی طالب علم، کوئی استاد، کوئی پروفیسر، کوئی ریسرچر، کوئی صحافی، کوئی لکھاری، غرض تعلیم و تعلم، تحقیق و تدریس، پڑھت لکھت اور دفتری کام کرنے والا کوئی ملازم کوئی تاجر، انڈورائڈ موبائل سے خالی نظر نہیں آتا، اور اس کے سارے کام موبائل پر ہوتے ہیں. آج لاکھوں پروفیشنل گروپ بنے ہوئے ہیں جہاں ہر وقت کام چلتا رہتا ہے. امور نمٹائے جاتے ہیں. بینک سے لے کر ایزی پیسہ کی دکان تک، فیکٹری اور کمپنی سے لے کر جنرل اسٹور تک، ہر کام موبائل پر ہوتا ہے. آج تو گھر کا سودا سلف اور ٹیکسی بھی موبائل کے ذریعے منگوائی جاتی ہے..
ہر قسم کی لاکھوں ایپس تیار کی گئی ہیں جو ضرورت کے وقت انسٹال کی جاسکتی ہے..زندگی کی ساری سہولتیں موبائل میں شفٹ ہوچکی ہیں.
بہر صورت آلہ شیطان اب آلہ رحمان بنتا جارہا ہے جو لوگوں کی سینکڑوں مشکلات کو آسان کرتا جارہا ہے.