میجر محمد عرفان برچہ شہید: اِک چراغ جو بُجھا
تحریر: تہذیب حسین برچہ
الفاظ انسان کی داخلی و خارجی کیفیات،جذبات اوراحساسات کے ترجمان ہوتے ہیں اور خوشی و غم کے سبھی لمحات کو پہناوا دے کر اس میں چاشنی اور رمق پیدا کرتے ہیں مگر شاید انسان کی زندگی میں کچھ ایسے لمحات بھی آتے ہیں جن میں الفاظ اپنی تاثیر اور توقیرکھو بیٹھتے ہیں کچھ ایسی ہی کیفیت سے میجر محمد عرفان برچہ شہید کے داغِ مفارقت دینے کے موقع پر دوچار ہوں۔اب بھی ایک لمحے کے لیے لگتا ہے کہ ان کی جدائی جیسے کوئی ڈراونا خواب ہو جس سے کچھ دیر میں نیند سے بیداری پر سب کچھ اپنے معمول کے مطابق ہوگااور بھائی صحیح سالم سکردو کی فضاؤں میں ہیلی کاپٹر کی اڑان بھرتے ہوئے برف کی سفید چادر اوڑھے اونچے پہاڑوں کے دلکش مناظر نگاہوں میں مقید کر رہے ہونگے یا آج رات گئے ان کی کال موصول ہوگی جس میں وہ بروشسکی زبان میں اپنے مخصوص انداز میں ”چِیپُو!(عرفان بھائی اسی نام سے پکارتے تھے) بہ بِلا۔۔۔۔ املو با۔۔۔۔؟” کہہ کر گفتگو کا آغاز کریں گے۔اب بھی گماں ہوتا ہے کہ کل ہی وہ اپنے مشن پر راولپنڈی پہنچ جائیں گے اور ”چِیپُو! صدر آجاؤ ساتھ کھانا کھائیں گے”کہہ دیں گے اور میرے وہاں پہنچنے پر بازو پھیلا کر گرم جوشی سے بغل گیر ہونے کے لیے منتظر ہونگے اور ڈھیر ساری گفتگو کے بعد مجھ سے نئی غزل سننے کی فرمائش کریں گے مگر جب تخیل سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں قدم رکھتا ہوں تو مجھ پر آشکار ہوتا ہے کہ انسان حقیقت سے لاکھ منہ موڑے مگر نہ چاہتے ہوئے بھی اسے سچ کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔
جرمنی کے عظیم فلسفی فریڈرک نطشے نے کہا تھا کہ کچھ لوگوں کو قدرت کچھ مقصد کے تحت دنیا میں لاتی ہے اور ان کے ذریعے سے وہ خاص مقاصد پورے کرتی ہے میجر محمد عرفان برچہ شہید بھی شاید انہی چنیدہ لوگوں میں سے ایک تھے۔عقلیت پسند،انسان دوست اور فطرت پسند شخصیت کے حامل میجر محمد عرفان برچہ کودنیا کو روایت سے ہٹ کر ایک خاص زاویے سے دیکھنے اور پرکھنے،دکھی انسانیت کے دکھ درد کا مداوا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح سے خوشحال دنیا کا خواب دیکھنے اور اس خواب کی تکمیل کے لیے اپنی کاوشوں کو بروئے کار لانے کا ہنر خوب آتا تھا۔کوئٹہ میں اپنی پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے دوران بلوچستان کے دور دراز پسماندہ علاقوں کے بچوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے رضا کا رانہ طور پر کوششیں کیں تو کبھی گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کی لیے اپنی کاوشوں بروئے کار لائیں۔پاک فون کے آفیسر ہونے کے باوجود نمود و نمائش سے کوسوں دور رہتے۔اصول پسندی،خودداری اور بے باکی ان کی خاص صفات تھیں جن سے ان کے قریب رہنے والے سبھی آشنا ہیں۔ رواں سال کے اوائل میں اپنی پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کے سلسلے میں راولپنڈی تشریف لائے۔صدر میں گھنٹوں پر محیط نشست اختتام پذیر ہونے کے بعد ہم نے گھر واپسی کے لیے ایک ٹیکسی کی خدمات لیں۔تھوڑی سی مسافت طے کرنے کے بعد ڈرائیور نے ان سے پیشے کے بار ے میں دریافت کیا تو ان کا جواب ”مزدوری کرتا ہوں ” تھا۔منزلِ مقصود پر پہنچنے سے قبل ایک مصروف شاہراہ پر گاڑی خراب ہوئی تو گاڑی کے ٹھیک ہونے تک نہ صرف ہم دونوں ڈرائیور کے ساتھ موجود رہے بلکہ عرفان بھائی اور میں نے انجن دوبارہ سٹارٹ کرنے کے واسطے گاڑی کو کئی میٹرز تک دھکیل بھی دیا۔بعد ازاں عرفان بھائی کو ایک دوست کی کال موصول ہوئی اور ان سے ملاقات کے لیے فوجی میس پہنچنے کی گزارش کی۔جس کے بعد انہوں نے طے شدہ کرایہ سے زیادہ ٹیکسی ڈرائیور کو ادا کیا اورایک دوسری گاڑی میں میس کی راہ لی اور ٹیکسی ڈرائیور کو تاکید کی کہ وہ مجھے گھر پہنچائے۔ٹیکسی ڈرائیور نے بعد ازاں پھر مجھ سے دریافت کیا تو میں نے عرفان بھائی کے فوجی آفیسر کے طور پر شناخت ظاہر کی۔ٹیکسی ڈرائیور نے نہایت حیرانگی کے ساتھ مجھ سے کہا”اتنا ملنسار اور سادہ فوجی آفیسر میں نے آج تک نہیں دیکھا کیونکہ کچھ لوگ تھوڑی سی دیر ہونے کی صورت میں بھی ڈرائیوروں کو نازیبا الفاظ تک سنانے سے گریز نہیں کرتے”
میجر محمد عرفان برچہ شہید کو اپنی جنم بھومی گلگت بلتستان سے بھلا کی محبت تھی۔2020ء میں جب ان کا تبادلہ پہلی بار ہوم سٹیشن سکردو ہوا تو نہایت خوش تھے۔اس موقع پر انہوں نے مجھ سے ازراہِ تفنن کیا”چِیپُو! اب تم شہر کی شور و غل کی زندگی میں رہو مگر میں گلگت بلتستان کی پہاڑوں میں زندگی کے کچھ لمحات گزار کر خود کو نہایت خوش قسمت تصور کروں گا”۔اسی طرح ان کی فوٹو گرافی میں بھی گلگت بلتستان کی خوبصورت وادیوں اور ثقافت کی عکاسی زیادہ نظر آتی ہے۔ایک اعلیٰ پائے کے فوٹو گرافر ہونے کے باوجود شہرت سے دور بھاگتے۔میں اکثر ان کو فوٹو گرافی کے ملکی اور بین الاقومی سطح کے مقابلوں کے اشتہارات بجھوا دیا کرتا مگر وہ اکثر کہتے کہ”فوٹو گرافی اور سیاحت سے مجھے ایک داخلی مسرت اور سکون حاصل ہوتا ہے۔کوئی میرے فن کو سراہے یا نہ سراہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ”۔
میجر محمد عرفان برچہ سے میرا تعلق تایا زاد بھائی سے کہیں زیادہ ہم خیال ساتھی اور ہمدرد دوست کا تھا۔جب کہیں مل بیٹھتے الٰہیات،کائنات کے رمز و رموز،ملکی حالات،فنونِ لطیفہ سمیت مختلف موضوعات پر گھنٹوں گفتگو ہوتی۔2018ء کے اوآخر میں چینی سفارت خانہ اور پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام کُل پاکستان مضمون نگاری کے مقابلے میں میری پہلی پوزیشن آئی۔چینی سفارت خانہ برائے پاکستان کی جانب سے تقسیم ِ انعامات کی تقریب میں شمولیت کے لیے ایک فیملی ممبر کا نام تجویز کرنے کی درخواست پر میں نے عرفان بھائی کا نام درج کرایا۔ان دنوں راولپنڈی میں خدمات سر انجام دینے کے سبب وہ چینی سفارت خانہ اسلام آباد میں منعقدہ تقریب میں نہایت خوشی اور جوش و خروش سے تشریف لائے اور میری تقریر کی ویڈیو ریکارڈ کرکے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر اپلوڈ کی۔کچھ دن بعد ہم دونوں نے راولپنڈی صدر میں واقع تہذیب بیکرز کا رخ کیا۔بیکری کے ایک حصے میں موجود ایک نا آشنا شخص نے میرے پاس آکر نہایت خوش دلی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا”آپ چین میں کسی تقریب میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔نہایت اچھا لگا” اتنے میں بیکری کے ایک اور حصے میں موجودعرفان بھائی ہمارے قریب آئے اور میرے جواب دینے سے قبل اس شخص سے مخاطب ہو ئے ”سر یہ میرے چاچا کے بیٹے ہیں۔ان کی ویڈیو میں نے ہی اپلوڈ کی تھی وہ مقام چین نہیں بلکہ چینی سفارت خانہ اسلام آباد تھا ”۔اس شخص کی جانب سے چائے کی پیشکش پر ہم نے شکریہ ادا کیا اور رخصت ہوئے۔بعد ازاں میرے اس شخص کے حوالے سے دریافت کرنے پر عرفان بھائی نے بتایا کہ وہ ان کے یونٹ کے کمانڈنگ آفیسر(سی او) تھے۔
ٍٍ زندگی میں کچھ فیصلے میں نے نہایت اچھے لیے ہیں جن پر شاید مجھے زندگی بھر افسوس نہ ہو۔ان میں سے ایک رواں سال جولائی کے مہینے میں عید کی چھٹیوں پر راولپنڈی سے سکردو عرفان بھائی کے پاس رخ کرنا تھا۔عرفان بھائی کی رفاقت میں سوق ویلی کچورا کی جانب راستے پر طویل ہائیکنگ کے بعد ریور ویو ہوٹل پہنچ کر دریا کنارے گزارے شام کے خوبصورت لمحات اب بھی ذہن میں کسی فلم کی طرح چلتے ہیں،آسمان سے باتیں کرتے پہاڑوں میں گھری سطح سمندر سے 10 ہزار بلندی پر واقع جنت نظیر چندا ویلی کے پُر خطر راستوں میں ہمارے تجربات اور گاڑی میں سنے ہوئے استادجان علی اور علی سیٹھی کے گانے کیسے فراموش ہو سکتے ہیں اور سکردو سے 80کلو میٹر کی دوری پر ضلع کھرمنگ میں واقع منٹھوکھا آبشار کے احاطے میں سرِ شام ہمارے لطف اندوز ہوئے چائے اور سگریٹ نوشی کے پل زندگی بھر بھلا کیسے ذہن سے نکل سکتے ہیں۔ ایک ہفتے کے وہ سات ایام میر ی زندگی کے یادگار اور بہترین روز و شب میں سے ایک تھے اور شاید زندگی بھر مجھے وہ رفاقت اور لمحات میسر نہ آ سکیں۔ان دنوں بھی میجر عرفان شہید کا ہیلی کاپٹرٹیکنیکل خرابی کی وجہ سے حادثے سے بال بال بچا تھا جس کے سبب انکوائری چل رہی تھی۔اس موقع پر میں نے عرفان بھائی سے کہا کہ کسی مال مویشی کا صدقہ دیں۔انہوں نے فوراَ جواب دیا اپنی جان بچنے کے چکر میں ایک بکرے کا ناحق خون کیوں بہاؤں۔ یاد رہے کہ ان کی رحم دلی اور نرم دلی کا یہ عالم تھا کہ ایک عرصے تک سبزی خور رہے تھے اور جانوروں کا گوشت کھانے سے بھی اجتناب کرتے تھے۔اسی دوران میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ فوج کی نوکری چھوڑ کیوں نہیں دیتے تو انہوں نے کہا کہ” موت سے ڈر کر آخر کب تک زندہ رہ سکتے ہیں مگر ارادہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہنزہ میں زیرِ تعمیر دی لاسٹ ریزورٹ میں زندگی کے بقیہ دن گزاروں یا وہاں بڑھاپے میں تمہاری بھابھی(میجر نورین نثار)اور میں کوئی یتیم خانہ قائم کریں ”۔
ماضی کے جھروکوں میں جھانک کر جب دیکھتا ہوں تو یادِ رفتگاں دل کا قرار چھین لیتی ہے اور بے بسی کی تصویر بن جاتا ہوں۔سینکڑوں یا دیں اور ایسے واقعات ہیں جو عرفان بھائی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔گوکہ انہوں نے نہایت کم عمر پائی مگر زندگی کی جتنی سانسیں میسر آئیں خوبصورت اور اپنے طریقے سے جیے۔جتنے لمحات میسر آئے دکھ درد کے مارے لوگوں کے بے پنا ہ احساس کے ساتھ گزارے اور حسبِ استطاعت ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوششیں کیں۔جب حیات تھے وہ اکثر مجھے نصیحت کرتے کہ زندگی مختصر ہے جتنے لمحات اور سانسیں میسر آئیں ان کو چھوٹی چھوٹی چپقلشوں کی نذر نہیں کرنی چاہیں بلکہ زندگی کے خوشی اور غم کے سبھی لمحات اچھے اور اپنے طریقے سے گزارنے چاہیں۔خدا بزرگ و برتر سے دعا گو ہوں کہ اللہ عرفان بھائی کے درجات میں اضافہ کرے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
مثلِ ایوانِ سحَر مرقد فرُوزاں ہو ترا
نُور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحَد پر شبنم افشانی کرے
سبز نَورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے (علامہ اقبال)