جمشید خان دکھیؔ، ایک عہد ساز شخصیت
تحریر: تہذیب حسین برچہ
زندگی کیا ہے اورموت کیا شے ہے۔۔۔۔۔۔؟حضرتِ انسان اس قضیہ کی گتھی سلجھانے میں روز اول سے سرگرداں ہے مگر کچھ ہاتھ نہیں آیا۔بابا بلھے شاہ نے”بلھا کیہ جاناں میں کون ”کہا تو کبھی واصف علی واصف نے زندگی کوایک راز قرار دیا جو اپنے جاننے والوں کو بھی راز بنا دیتا ہے۔ٹی ایس ایلٹ نے زندگی کو ایک مسلسل تحریک کا نام دیا تو شیکسپیئر نے اسے ایک احمق کی سنائی ہوئی کہانی کی مانند قرار دیا۔ شوپنہار نے زندگی کو انسانی تکلیف کی کیفیت کہا تو دوستو فسکی نے اسے جہنم سے مماثل قرار دیا۔ڈینش فلسفی سورین کرکیگارڈ نے اسے ایک ایسی حقیقت سے مشابہ کہا جسے محسوس کرنا اور برتنا ہے تو کارل مارکس کے مطابق زندگی اپنے آپ میں ایک مقصد ہے۔کرہ ارض پر ہر ایک انسان کی زندگی کے شب و روز گزارنے کا اپنا ڈھنگ اورطور طریقہ ہے مگر جن انسانوں کے وجود کو محبت کا حَسین جھونکا چھو کر گزرتا ہے وہ سر سے پا تک محبت، شفقت اور اخلاص کا مرقع ہوتے ہیں اور ان کا وجود دنیا کے دوسرے انسانوں کے لیے سدا خیر کا باعث بنتا ہے۔
پیار دل میں بسا لے اے انسان
کیونکہ تیرا مقام افضل ہے
نیکیوں کے تمام کاموں سے
فرد کا احترام افضل ہے
جمشید خان دکھیؔ،نوکِ قلم سے کاغذ پر یہ نام لکھتے یالبوں سے ادا کرتے ہوئے ذہن کے کسی گوشے میں یادوں کے دریچے کھل جاتے ہیں۔ وہ شخص کیا تھا سراپا محبت کا استعارہ تھا۔غالباَ2011ء کی بات ہے کہ حلقہ اربابِ ذوق کے تحت ہونے والے مشاعروں میں باقائدگی سے میری شرکت کے بعد اس عظیم شخصیت کو قریب سے دیکھنے اور جانے کا موقع ملا۔گو کہ کئی دہائیوں پر محیط میرے بزرگوں کے ساتھ قائم گھریلو تعلق کے سبب ان کی شخصیت اور نام سے بچپن سے ہی آشنا تھا اور ان کا شمار بھی میرے بزرگوں کی پیڑھی میں ہوتا تھا اسی سبب حلقہ اربابِ ذوق میں شمولیت کے بعد بھی میں اکثر دکھی صاحب سے زیادہ گھُل ملنے میں ہچکچاہٹ بھی محسوس کرتا کہ کہیں احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے مگر دکھی صاحب کی وسیع القلبی،بڑا پن اور ذرہ نوازی تھی کہ انہوں نے ہمیشہ میرے ساتھ ایک بہترین دوست کی طرح برتاؤ کیا،ایک مخلص بزرگ کی طرح ہمیشہ بوقتِ ضروت وعظ و نصیحت کی اور ایک بہترین استاد کی طرح ادب کے میدان میں رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی۔2015ء میں حلقہ اربابِ ذوق کا اسلام آباد اور لاہور کا مطالعاتی دورہ ہو یا سکردو میں ”یومِ حسین” میں شرکت کے لیے احباب کے سالانہ سفر،ضلع غذر کی یاتراہو یا ضلع نگر اور گلگت کے مضافاتی علاقوں میں مشاعروں میں شرکت کی غرض سے کیے گئے سفر۔ دکھی صاحب ہمیشہ ایک زندہ دل اور ہمہ جہت راہبر کا فریضہ انجام دیتے تھے اور گلگت بلتستان میں ادب کی آبیاری کے لیے اپنی ایک عمر خرچ کی۔غمِ روزگار کے سلسلے میں 2019 ء میں میرے اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد اکثر فون پر رابطہ رہتااور فوتگی سے ایک ہفتے قبل بھی شدید علیل ہونے کے باوجودمیری کال اٹینڈ کی اور بات چیت کی اور دریافت کیا کہ گلگت آئے تو نہیں ہو۔۔۔۔۔؟ مگر خدا کو کچھ اور منظور تھا اور دکھی صاحب گلگت بلتستان خصوصا حلقہ اربابِ ذوق گلگت کی ادبی محافل کو ویران کرکے داغِ مفارقت دے گئے۔
کسی بھی حساس فرد کا اپنے اردگرد کے معاشرے کے اتار چڑھاؤ سے متاثر ہونااور سماج میں موجود نا ہمواریوں سے اثر لینا ایک انہونی بات ہے۔دکھی جیسا حساس طبیعت کا مالک اور دردِ دل رکھنے والا انسان گلگت بلتستان کی محرومیوں اور مختلف قسم کے تعصبات کی شکار قوم کی حالتِ زار پر بھلا کیسے خاموش رہ سکتا تھا سو انہوں نے اپنی شاعری اور مضامین میں کسی بھی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر کھُل کر لکھا اور مقتدر طبقہ کو گلگت بلتستان کی محرومیوں کی جانب توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی تو کبھی گلگت بلتستان کی عوام کو تمام تعصبات کو بالائے طاق رکھ ایک قوم بن کر محبت اور امن و امان کے ساتھ ایک دوسرے کے دکھ درد کا مداوا کرکے ایک مہذب قوم بن کر علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں رہنے کا پیغام دیا اور آخری سانس تک امن و آشتی اور باہمی محبت وحترام سے مزین گلگت بلتستان کے عوام کی بہتری و خوشحالی اور درخشندہ مستقبل کا خواب دیکھتے رہے۔
مری دھرتی تو میری آبرو ہے
تری تصویر پہم روبرو ہے
شبِ ظلمت کا ہوگا کب سویرا
اندھیرا ہی اندھیرا چارسو ہے
ایک اچھے ادیب یا شاعر سے قبل ایک اچھا انسان بننا نہایت ضروری ہے۔اچھی غزل یا نظم کہنا اور اچھی تحریر رقم کرنا آپ کا ہنر ضرور ہو سکتا ہے مگر یہ آپ کی شخصیت کے نکھار اور تکمیل کے لیے کافی نہیں۔تعصب،بغض،کینہ،حسد اورغرور ایک تخلیق کار کی زبوں حالی کا باعث بنتے ہیں یا ان کمزوریوں کے ساتھ ایک تخلیق کار کوئی تخلیق کرتا بھی ہے تو شاید قدرت اس سے تاثیر چھین لیتی ہے۔زندگی میں جن ملکی اوربین الاقوامی سطح کے تخلیق کاروں سے میری ملاقات ہوئی حقیقی تخلیق کار کو متذکرہ بشری کمزرویوں سے دور ہی پایا۔دکھی صاحب بھی نہایت باکردار،ملنسار اورعاجز طبیعت کے مالک تھے۔اسی سبب شاید قدرت نے ان کے ہر شعر کو تاثیر بخشی تھی۔محبت ان کی شاعری کا جزو اعظم تھا انہوں نے ہمیشہ انسانی عظمت کے گیت گائے۔ مذہب، رنگ،نسل اور علاقائی تفرقات کو پسِ پشت ڈال کر ہمیشہ انسانیت کے احترام کا درس دیا۔اپنے خطے سے محبت ان کی کی ذات کا خاصہ تھا اور فتنہ و فساد،نفرت اور تعصب کو دلوں سے نکال کر محبت کی رِیت کو عام کرنے کا درس عام کیا۔
تعصب کے گھروں کو سیل کرلو
بنی آدم کی مت تذلیل کرلو
بدلنی ہے اگر قسمت وطن کی
تو اپنی عادتیں تبدیل کرلو
آپ اسے میری زندگی کا حاصل کہہ لیں یا ایک نا تجربہ کار فرد کاتھوڑا سا تجربہ۔ عمر کے جوماہ و سال گزارے ہیں میں نے ان میں محسوس کیا ہے آپ کی زندگی میں بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جن سے خونی رشتہ تک ہونے کے باوجود بھی آپ کو ان کا وجود یا صحبت بغیر کسی وجہ کے چند ساعتوں کے لیے بھی گوارا نہیں ہوتا اور دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے آپ قربت اور اپنائیت محسوس کرتے ہیں اور آپ مدتوں ان کی صحبت میں رہیں بہت کم ہی لگتے ہیں۔قدرت نے شاید دکھی صاحب کو بھی ایسی شخصیت ودیعت کی تھی آپ جتنی دیر بھی ان کی صحبت میں رہیں قرابت اور یگانگت کا ایک بہترین احساس ہوتا تھا۔انسان دوستی جس فرد کا شعار ہو،رنگ و نسل اور مذہب کے تفرفات سے کوسوں دور ہو، خلقِ خدا کے لیے خوشی کا باعث بننا جو اپنے باعثِ فخر تصور کرے،احترام بشر کو جو زندگی کا سب سے بڑا مقصد گردانتا ہواوردوستوں کی محفلوں کو کشت زعفران بنانے کے ہنر سے خوب آشنا ہو تو شاید ایسی شخصیت کو داخلی اور خارجی طور پرنکھارنے کا قدرت بھی ساماں فراہم کرتی ہے اور آپ اس انسان کی صحبت کو کسی صورت فراموش کرنا گوارا نہیں کر تے۔میں کوئی بھی نئی غزل کہتا تو دکھی صاحب کو مسیج کرتا وہ نہ صرف نوکِ پلک سنوار کر دوبارہ بجھوا دیتے بلکہ خصوصی طور پر کال کرکے بھی کلام پر داد دیتے۔دکھی صاحب کے داغِ مفارقت سے گلگت بلتستان کی ادبی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا اس کے پرُ ہونے میں شاید زمانے لگیں۔ گلگت بلتستان میں قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں دکھی صاحب جیسے عظیم انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور گلگت بلتستان کے آسمان علم و ادب کے ایک روشن ستارے کاڈوب جاناادبی دنیا کا بہت بڑا نقصان ہے۔
حلقہ اربابِ ذوق گلگت کو یہ طرہء امتیاز حاصل ہے کہ اس کی بنیاد سے اب تک اس میں موجود ممبران کے درمیان محبت،خلوص اور احترام کا ایک مضبوط رشتہ قائم رہا ہے اور ہر ایک کے دکھ اور سکھ سانجھے ہیں۔اس قافلے میں شامل ہونے والا ہر فرد اسی کا ہو کر رہ جاتا ہے۔محبت،خلوص اور احترام کی اس روش کو قائم رکھنے کا سہر ا سینئر شعراء کے سر جاتا ہے۔ گلگت کے نوجوان لکھاریوں کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ بزرگوں نے ملک کے دیگر حصوں کے ادبی بابوں کی طرح سلوک کبھی روا نہیں رکھا۔ ملک کے د یگر بڑے شہروں کی طرح سینئر جونیئر کے چکروں میں پڑتے ہوئے ایک فاصلہ برقراررکھااور نہ ہی نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرنے میں بخل سے کام لیا بلکہ حلقہ ارباب ذوق گلگت کے سینئر اساتذہ اور لکھیک جن میں پروفیسرمحمد امین ضیا،عبدالخالق تاج،خوشی محمد طارق،شیر باز علی خان برچہ،عبدالحفیظ شاکر،غلام عباس نسیم اور دیگر شامل ہیں نے ہمیشہ نوجوان لکھاریوں کی ہر قدم پر بھرپور رہنمائی اورحوصلہ افزائی کی ہے اور نوجوان لکھاریوں کی ہر کامیابی کو اپنی،ادبی تنظیم اور علاقے کی کامیابی تصور کرتے ہوئے سر پر دستِ شفقت رکھا ہے۔دعا گو ہوں کہ خدائے بزرگ و برتر دکھی صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور اوردیگرتمام سینئر لکھاریوں کو لمبی عمر عطا کرے اور گلگت بلتستان میں ادب کی آبیاری کے لیے اپنی کاوشوں کو مزید بروئے کار لانے کی توفیق عطا کرے۔