کالمز

خودکشی  کے محرکات

 نیلوفر بی بی

ماہر عمرانیات  ایمائل ڈرکائم   اپنے  نظریہ خودکشی  میں لکھتے ہیں جن لوگوں  میں  مذہبی رجحانات کم  ہوتے ہیں ان میں خودکشی کے رجحانات بڑھ جاتے ہیں ۔

محترم  ڈرکائم  سے نہایت معذرت کے ساتھ جن لوگوں میں روحانی اور اخلاقی اقدار کی پیروی زیادہ ہو مگر معاشرہ جنگل نما ہو ۔جھوٹ اور حرام خوری کے راستے پر چلنے والوں کے لیے آسانیاں ہی آسانیاں ہو۔ اور ایمانداری کے راستے پر چلنے والوں کے لیے زندگی کا سفر دشوار گزار  بنادیا جائے پھر  ایسے معاشروں میں بھی خودکشی کے رجحانات بڑھ جاتے ہیں۔

 اس کے باوجود بحیثیت   مسلمان ہر حالت میں اپنے رب پر بھروسہ رکھنا ہے ،زندگی کے سبھی راستے بند ہو جائے تب بھی امید کا دامن تھامے رکھنا ہے۔

اس لیے دین اسلام میں خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

پھر انسان خودکشی جیسے تکلمیف دہ عمل کا مرتکب کیوں ہوجاتاہے۔ہم خودکشی اور خودکشی کرنے والوں کی  مزمت اور ان پر لعن طعن تو کرتے ہیں۔ لیکن کبھی ان عوامل کی مزمت نہیں کرتے  جن کے شدید اثرات کسی انسان کی زندگی کا چراغ گل کر دینے کا باعث بنتے ہیں۔

خودکشی کے متعلق میرے خیالات  اس وقت تبدیل ہوئے جب دنیا کے بارے میں اور زندگی کے متعلق اپنی کلاس کے بچوں کے خیالات  جاننے کا موقع ملا۔

یہ معصوم بچے اپنے وقت سے پہلے کی سوچ  لے کر پیدا ہوئے ہیں ۔یہ تو قدرت کے انمول موتی ہیں ، یہ تو چمکتے  تارتے ہیں  شاید  زمین کی تاریکی دور کرنے کے لیے قدرت نے انہیں زمین پر اتارا ہیں۔

کیا ہمارے جنگل نما معاشرے میں انہیں ان کے خیالات، ان کی فطری  صلاحیتوں کے مطابق پھلنے پھولنے کا موقع ملتا ہے۔

حساس ،دوسروں سے ہٹ کر سوچنے اور دیکھنے والے  یہ انسان   جب اپنی ذات کو بیرونی دنیا سے ہم آہنگ نہیں کر پاتے  ہیں۔تو یہی وہ مقام ہے جہاں سے فرد اور معاشرے کے درمیان تصادم شروع ہو جاتا ہے۔

زبردستی کی  شادی  سے  راہ فرار اختیار کرنے والے جب اپنے ہاتھوں سے پھانسی کا پھندا گلے میں  ڈالتے ہیں۔ان کے پیچھے انہیں  جہنم کی بشارت دیتے وقت ہم کیوں  زبردستی اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرنے والوں  کی  اور   دین ،قانون  کو پس پشت ڈال کر   زبردستی اپنے بنائے ہوئے خود ساختہ اصول کے شکنجے میں دوسروں کی زندگی عذاب بنانے والوں کی مزمت نہیں کرتے۔۔ظلم اور جبر پر مبنی ان رویوں کی حوصلہ شکنی  کیوں نہیں کرتے جو دوسروں کی زندگی کی خوشیوں  کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں ۔

کسی کی بیٹی کو  اپنے بیٹے کی دلہن بناتے وقت  یہ کیوں  نہیں سوچتےکہ ہمارےبیٹےکی طرح  یہ ایک زندہ وجود ہے۔ جو اپنی پسند نا پسند کا حق رکھتی ہے۔ اپنے گھر لاکر  اس کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں ۔ میکے سے  اس   نصیحت  کے  ساتھ رخصت  کیا جاتا ہے کہ

 ٫٫جنازہ  واپس آئے  مگر  جھگڑا کر کے وآپس نہیں آنا ،،

ایسے میں خودکشی کے سوا کوئی راستہ دکھائی نہیں  دیتا۔۔اس خاتون کو برابھلا کہنے والے یہ کیوں نہیں دیکھتے کیا اسے جینے کے لیے آزادی کی سانسس نصیب تھی۔اس نے خود کشی نہیں کیا بلکہ سسرال میں اس کا دم گھٹ گیا اور کوئی بچانے والا نہیں تھا۔

جس معاشرے میں نوجوان کے لیے کھیل کے میدان، مثبت تفریح سرگرمیاں  ناپید ہو ۔فنون لطیفہ کو فروغ نہ ملے آیسے معاشروں کے افراد  ذہنی ،قلبی اور روحانی گھٹن کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ یوں آ پنے مردہ وجود کا بوجھ  خود کشی  کے پھندے پر ڈال دیتے ہیں

کسی کی زندگی میں اچانک  منفی تبدیلی آجائے  اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مایوسی اور ناامیدی کی حالت میں،  گھر ،خاندان  یا معاشرے میں کوئی ایسا  نہیں ہوتا جو اسے حوصلہ دے ،غم خواری کرے ۔

ہم تو زخموں پر نمک چھڑکنے اور  مزید پریشان کرنے کے لیے آگے بڑھ جاتے ہیں۔انسان مایوس نہ بھی ہو ایسی ایسی باتیں کر جاتے ہیں،مصیبت زدہ انسان کو اتنا خوف زدہ کر دیتے ہیں جس کے وہم وگمان میں بھی خودکشی نہ ہو ایک لمحے کے لیے سوچے بغیر  دریا میں چھلانگ لگانے کی دیر نہیں کرتا۔

کیوں کسی انسان کو خودکشی پر اکسانے والوں کو ہم نظر انداز کر دیتے ہیں۔

ہمارے علماء دین خودکشی کرنے والوں پر لعن طعن  کرتے  وقت یہ کیوں نہیں دیتے رحمتہ اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم   تو اپنے لوگوں کے درمیان ،اپنے لوگوں کے ساتھ گل ملکر رہتے تھے  ۔ صحابہ کرام  آپنا ہر مسئلہ   بغیر کسی  لحاظ اور شرم کے ان سے ذکر کرتے اور رہنمائی لیتے تھے۔یہاں تک کہ خواتین کے لیے بھی تعلیم و تربیت  کا انتظام موجود تھا۔

کیا ہمارے علماء دین  عوام  کی پہنچ میں ہیں ۔عالم تو

 سر تاپا دوسروں کے لیے خیر ،بھلائی ،شفقت اور رہنمائی کا باعث ہوتاہے۔

کیا ہم نے مخلوق خدا کے لیے دروازے کھلے رکھے ہیں کہ وہ بغیر کسی خوف اور جھجک کے  آپنے علماء دین سے رجوع کریں ۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں  کوئی حق نہیں پہنچتا  صرف خودکشی کی مزاحمت کرنےکی اور خودکشی کرنے والوں کو برابھلا کہنے کی۔

کتنے معصوم بچے  اور نوجوان خودکشی جیسے تکلیف دہ   صورت حال سے صرف دوسروں کی وجہ سے دو چار ہوتے ہیں۔

ایسے  نوجوانوں کو  دنیا والے خوب کوستے ہیں  ماں باپ کا دل اور چھلنی کر دیتے ہیں۔لکین کوئی ہمارے اس فرسودہ ،جہالت اور بے عملی  پر مبی  چوں چوں کا مربہ نما  تعلیمی نظام کی مزمت نہیں کرتا۔  یہ معصوم کلیاں جو ابھی کھلے بھی نہیں ہوتے   انہیں  نمبروں کے دوڈ میں  لگا دیا جاتا ہے ۔ان تعلیمی اداروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتا کہ  بچہ کیا سیکھ رہا ہے، بچے کی شخصی تربیت کس سمت پر ہورہی ہے۔ انہیں صرف بچے کے رزلٹ کارڈ پر درج نمبروں سے  غرض ہوتا ہے۔

رٹے رٹائے ہوئے سبق سے بچے اتنے بے زار آجاتے ہیں کہ تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے کے بعد پھر کبھی کتاب کی صورت نہیں دیکھتے۔

 ۔ یہ نام  نہاد  پرائیویٹ  تعلیمی ادارے    بے چارے سیدھے سادے ماں باپ کے دل میں انجانا خوف بٹھا دیتے ہیں اگر  بچے کا رزلٹ  اے پلس  نہ ہو تو بچوں کا مستقبل تباہ ہو جائے گا ۔

 بچے کا خراب رزلٹ دیکھ کر ماں باپ  خود ،خودکشی کا ارادہ کرتے ہیں۔ کتنے شوہر  بچے کا خراب رزلٹ آنے کی صورت میں بیویوں کو طلاق تک کی بھی دھمکی  دیتے  ہیں۔

بعض اساتذہ ایک بچے کے والدین کے سامنے دوسرے بچے  کی برائیاں اور شرارتوں کے قصّے شروع کر دیتے ہیں، ،خراب رزلٹ آنے کی صورت میں اردگرد کے لوگوں کی جانب سے طنز کے جو نشتر چلتے  ہیں معصوم بچے کے لیے یہ سب سہنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔

جب اس ماحول میں  ایک انسان خود کشی کرتا ہے۔تو پھر یہ خودکشی  نہیں بلکہ یہ قتل ہے ۔بچے کو مار دیا گیا ہے۔

ہمارے قانون میں بلاواسطہ کسی کو مار دینے کی سزا کیا ہے مجھے نہیں معلوم۔

بعض اوقات انسان کے جسم میں غیر متوازن غذا یا غذائی قلت کی وجہ سے ایسی کیمیائی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو اسے خودکشی کی جانب راغب کردیتےہیں ۔

ایسے میں ہم کیسے ایک بے قصور انسان کو برا بھلا کہہ سکتے ہیں۔

ریاست مدینہ کے حاکم نے فرمایا تھا دریائے فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مرے تو اس کا احساب عمر سے لیا جائے گا۔ آ ج اسلامی جمہوری ریاست میں خاندان کا سربراہ بیوی بچوں سمیت خودکشی کرتا ہے۔

اس طرح کے دل خراش واقعات کے تدارک کے لیے زکوٰۃ کا نظام متعارف کروایا گیا ہے۔دودھ پیلانے والی ماؤ ں کے لیے وظائف  دیئے جاتے تھے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بیھگ منگتے دیکھ کر اس کے لیے آ پنی نگرانی میں روزگار کا بندوست  فرمایا تھا۔

ہمارے اسلامی جمہوری معاشرے میں ان عظیم اصول اور اقدار کی کس حد تک پیروی ہوتی  ہیں ؟

جن معاشروں میں مساوات ، رواداری  اور عدل و انصاف کا فقدان ہو ، معاشرتی وسائل  کی غیر منصفانہ تقسیم ہو    دیگر جرائم  کر ساتھ ساتھ یہ سب بھی خودکشی کا محرک بنتے ہیں۔

اس قسم کی  معاشرتی  ناہمواریوں  سے متاثر  ہونے والوں کی اکثریت  ایسے  لوگوں  کی ہوتی ہے  جو آ پنی ذاتی زندگی میں آسودہ حال ہوتے ہیں ۔لیکن  انسانیت کو  اپنے  اردگرد ظلم اور جبر کی چکی میں  پستے   دیکھ کر معاشرے میں موجود منفی قوتوں کا آسانی سے آلہ کار بنتے ہیں ۔

یوں نہ صرف خودکشی  کرتے  ہیں بلکہ کئ اور قیمتی جانوں کو خودکش حملوں میں اڑا دیتے ہیں۔

مہاتما بدھ  اپنے اردگرد  لاچار انسانوں کے لئے سچی خوشی کی تلاش میں جنگل کی طرف نکل پڑے  تھے۔لیکن یہ شعور ہر ایک میں نہیں ہوتا۔

بعض انسان  خود  کو اپنے اردگرد کے ماحول کے مطابق  ہم آہنگ کرنے کی سمجھ  بوجھ اور اہلیت  نہیں رکھتے ہیں ۔وہ خود کو اس نا مانوس ماحول میں اجنبی محسوس کرتےہیں۔یا خود کو ناکارہ اور اپنے وجود کو بوجھ تصور  کرتے ہیں۔مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے  خودکشی آسان دستیاب حل ہوتا ہے۔

ذہنی صحت پر کام کرنے والی ایک ماہر نفسیات ایک سیشن میں سولہ،سترہ سالہ لڑکی کے بارے میں بتا رہی تھی جس نے کئ مرتبہ خود کشی کی ناکام کوشش کی تھی۔لڑکی کے ساتھ مسئلہ یہ تھا وہ لڑکیوں کے بجائے لڑکوں کے ساتھ رہتی  ، سر کے ایک جانب بال کاٹ دیتی دوسری جانب بال چھوڑ دیتی ۔ جس کی وجہ سے والدین اور خاندان والوں کی جانب سے سختی کا سامنا کرنا پڑتا ۔

وہ ماہر نفسیات  بجائے  بچی کی  رہنمائی کرنے کے، معاشرتی اقدار کے منافی حرکتوں کی حمایت کررہی تھی ۔

ایسے میں ہم مکمل طور پر ذہنی صحت کے ماہرین پر بھی بھروسہ نہیں کرسکتے۔

دور جدید میں تعلیمی اداروں میں بچوں کی ہمہ جہت شخصیت سازی پر زور دیا جاتا ہے ۔جس میں معاشرتی شعور اور معاشرتی تربیت بھی شامل ہے بچے کو معلوم ہونا چاہیے میرا تعلق کس معاشرے سے ہںے معاشرے کے مثبت اقدار کونسے ہیں اچھائی اور برائی کا معیار کیا ہے ۔اس طرح خود کو معاشرے سے ہم آہنگ کرنے میں اسے مدد ملتی ہے ۔

ا  ایسے معاملات میں لوگوں کی رہنمائی ،بحالی اور ذہنی صحت کے لیے ریاست کی جانب سے  آیسے جدید اور فعال ادارے قائم کیے جائے جہاں اپنے شعبے پر  مہارت رکھنے والے نفسیاتی ماہرین  اور معاشرتی محققین موجود ہو۔ جو جدید دور کے تقاضوں کا شعور اور   ہمارے اعلیٰ معاشرتی اور دینی اقدار  کا فہم رکھتے ہو۔

جو انسانیت سے محبت کرنے والے ہو۔ اس طرح کے معاملات کو دیکھنے والوں کے سینے میں انسان کا دل     ہو نا ضروری ہے۔

اپنے لوگوں سے اتنی سی گزارش ہےکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

تم میں سے سچا مسلمان وہ ہیں  جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو۔

ہم کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے دوسروں کی دل آزاری ہو ۔ہم جہالت پر مبنی سوچ اور رویوں کی حوصلہ شکنی کریں۔خود کشی کرنے والے  معصوم اور حساس لوگ بیرونی دباؤ برداشت کرنے کی استعداد نہیں رکھتے ہیں اس لیے حرام فعل کی جانب بڑھ جاتے ہیں ۔

عام شہریوں کے لیے معاشرے کو محفوظ اور فلاحی بنانا ریاست اور حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔

 خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں،

بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے

میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو،

خدا کے بندوں سے پیار ہوگا  ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button