کالمز

ریاست بلور کی گمشدہ تاریخ۔ تیسری قسط

تحریر و تحقیق: اشفاق احمد ایڈوکیٹ 
کارل جیٹمار اپنی کتاب بلور اینڈ درردستان کے صفحہ نمبر 30 میں لکھتے ہیں کہ مشہور  سیاح مارکو پولو نے بلور کو جنگلی کافروں کا ایک ملک  قرار دیا جہاں وہ جانوروں کی کھالیں پہنتے تھے اور وہ جانوروں کا پیچھا کرتے ہوئے زندہ رہتے ہیں "۔  لیکن ظاہر ہے کہ وہ صرف سنی سنائی باتوں  کے ذریعے ہی بلور ریاست  کے بارے میں جانتا تھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عرب لکھاریوں نے اس علاقے کو پلولو کی بجائے بلور کا نام دیا۔ سابق گلگت ایجنسی میں رہنے والے مقامی باشندے آج بھی بلتستان کے لوگوں کو پلویو کہتے ہیں۔
  دوسری طرف لیٹل بلور یعنی گلگت زمانے قدیم سے ہی شاہراہ ریشم پر واقع ایک اہم شہر تھا ۔  اس اہم تاریخی شاہراہ کے ذریعے سے ہی بدھ مت کو جنوبی ایشیاء سے لے کر باقی ایشیاء تک پھیلایا گیا۔
برصغیر کے بادشاہ اشوکا (269-232BC) نےگلگت اور کشمیر کے درمیان راستہ کھولا ۔ یہ شاہراہ ریشم ہی تھیں جو بدھ مت کو ہندوستان سے چین لے گئیں۔  بدھ مت پہلی صدی عیسوی میں چین پہنچا تھا۔  شہنشاہ منگ تے کے زمانے میں ، متعدد سفیروں کو ہندوستان بدھ مت کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔  اسی دوران زائرین نے اپنے اصل وسائل ، صحیفوں اور مقدس مقامات کی تلاش میں چین سے ہندوستان کا سفر شروع کیا اور سلک روٹ سے ہوتے ہوئےمغرب کی طرف روانہ ہوئے۔  انہوں نے قراقرم عبور کیا اور پامیر سے گزرتے ہوئے گندھارا گئے کیونکہ بدھ مت کے پیروکاروں کے لئے یہ دوسری مقدس سرزمین تھی۔ شاہراہ ریشم کے ذریعے ہی بدھ مت نے گندھارا سے خوتن ، یارقند ، کاشغر اور مغرب میں چین کا سفر کیا۔
  فاہین نے اپنا سفر 400 عیسوی کو شروع کیا جبکہ سونگ یون ، تاشکورگان سے مسگر گاؤں (ہنزہ)  میں داخل ہوا اور  وہاں سے اودھیانہ (سوات) اور گندھارا گیا۔  ایک اور چینی سیاح اور راہب چی مونگ نے پامیر کو عبور کیا۔  گلگت کا سفر کیا اور برزیل پاس سے کشمیر میں داخل ہوا۔  ایک اور چینی راہب فو ینگ نے پامیر  سے یہی راستہ اختیار کیا۔  آٹھ صدی کے بعد کے حصے میں ،  زائرین کے ایلچی وو کانگ نے یاسین اور گلگت کا راستہ اختیار کیا تاکہ وہ انڈس اور اودھیانہ تک پہنچ سکے۔  گلگت کا راستہ برصغیر اور چین کے مابین ایک اہم ربط تھا۔  منٹاکا ، کِلک ، قراقرم ، دورکوٹ ، باروغیل اور پامیر پاس سب برصغیر کے داخلی راستوں میں داخلے کے لئے تھے۔  شاہراہ قراقرم کوہستان  سے چلاس (گلگت بلتستان) تک گلگت اور ہنزہ کے مقدس چٹانوں پر کندہ کاری اور نقش و نگار موجود ہیں جن میں کچھ نقاشیوں کا تعلق پہلی صدی عیسوی سے ہے۔ یہ سب زائرین کے اس طرح سفروں کا پتہ دیتے ہیں۔
ہسٹری آف ناردرن ایریاز آف پاکستان نامی کتاب میں احمد حسن دانی لکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان سے ملنے والے مختلف inscriptions اور Manuscripts میں پٹولاشاہی دور/ بلور شاہی ریاست کے سات حکمرانوں کے نام درج ہیں۔
ان انسکرپشنز میں ہاتون انسکرپشن ، دنیور انسکرپشن ، عالم برج انسکرپشنز اور راک نقاشیوں، اور چلاس  کے قریب انسکرپشنز و چٹان کی نقاشیوں کی بہت تاریخی اہمیت ہے۔
 بقول دانی Sacred Rocks Of Hunza میں
شری دیوا چندرا وکرما دیتہ کا نام کنندہ ہے جو کہ پٹولا شاہی دور میں ریاست بلور کا اخری حکمران تھا جس سے عام طور گلگت بلتستان کے لوگ شری بدت کے نام سے جانتے ہیں اس دور میں یہاں کےلوگ بدھ مت کے پیروکار تھے۔
 گندھارا اور کشمیر سے بدھ مت گلگت اور اسکردو میں داخل ہوا۔ جان بیڈلوپ کے مطابق ، بدھ مت کے نروان کے 150 سال قبل مسیح  کو یا اس سے تین سو سال بعد بدھ مذہب اس خطے میں آیا ۔  دوسری صدی عیسوی میں بدھ مت مختصر راستوں کی وجہ سے گلگت کی وادیوں  تک پھیل گیا۔  کچھ مشہور چینی عازمین / بھکشو گلگت کے راستے اودھیانہ (سوات) تشریف لاتے جاتے  تھے۔
 یونیسکو کے مطابق گلگت کے مخطوطات قدیم زندہ بچ جانے والی نسخوں میں شامل ہیں۔  یہ مخطوطات برصغیر میں بدھ کے مسودات کی واحد حوالے (کارپس)  ہیں۔ گلگت کے مخطوطات میں تین بدھ مت کے مذاہب (مذہب کے سربراہوں کے مابین کانفرنس) کا حوالہ ہے۔  ایک اور مشہور سائٹ ہنزہ  (گنیش اور عطا آباد جھیل) کے درمیان موجود ہے جس سے ہالڈیکوش کہا جاتا ہے۔  یہاں ایک ایسی اہمیت کی یادگار ہے جو لوگوں کی نگاہوں سے صدیوں تک پوشیدہ رہی ہے۔ یہاں پر  پتھروں پر نقاشی پہلی صدی سے شروع کی گئی تھی۔  ہنزہ کی مقدس چٹانوں میں نوشتہ جات موجود ہیں اس لیے ان کو سب سے اہم سمجھا جاتا ہے۔
 اسکردو کے قریب منتھل گاؤں بدھی نقش و نگار کے لئے مشہور ہے اور یہ سیاحوں کے مشہور مقامات میں سے ایک ہے۔  بیس شاگردوں کے چاروں طرف بدھ کا ایک بہت بڑا مجسمہ ہے۔  یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ شلالیھ دوسری اور تیسری صدی کے آس پاس نقش کشی کی گئی ہوں گی۔
  چوتھی صدی عیسوی کے دوران اس خطے میں بڑی تعداد میں بُدھی خانقاہوں اور اسٹوپاز کی تعمیر کی گئی اور اہستہ اہستہ  گلگت بدھ مت کی ایک اہم  مرکزبن گیا۔  اس وقت گلگت بلتستان کے بلور حکمران بدھ مت کے پیروکار تھے۔  اس طرح گلگت بدھ مت اور بدھ بھکشوؤں کا مرکز بن گیا۔
  ہیرالڈ ہاپ مین کے مطابق گلگت بلتستان میں پچاس ہزار سے زیادہ چٹانوں کی نقاشیوں اور چھ ہزار شلالیھ کو ریکارڈ کیا گیا ہے اور مزید تلاش کے ساتھ تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
پروفیسر آسکر وان ہنبر اپنے ریسرچ پیپر بعنوان” گلگت میں سدھرمپواسر کاساترا ، خطوط ، عبادت گزار ، اور فنکار“  میں لکھتے ہیں ”قدیم ہندوستان کی واحد زندہ لائبریری ، گلگت لائبریری تھی جو اتفاق سے 1931ء میں گلگت کے قریب نپورہ میں ایک مقام پر دریافت ہوئی اور اس  قدیم عمارت کو اکثر غلطی سے ایک اسٹوپا سمجھا جاتا ہے۔
   آثار قدیمہ کے ثبوت کے مطابق یہ عمارت ایک چھوٹی سی ٹاور تھی اور راہبوں کے لئے ایک رہائشی جگہ تھی ۔ یہ شاید دو منزلہ عمارت تھی جہاں راہب ، مذہبی مشیروں کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے تھے ۔  ممکنہ طور پر وہ بدھ مت رسومات بجا لاتے  تھے اور یقینی طور پر مقامی افراد کے لیے معالجہ کے طور پر خدمات انجام دیتے تھے جہاں متعدد نسخوں اور بدھ مت کی چیزوں کو  دفن کیا گیا تھا۔
 اس کی تصدیق نپورہ گلگت سے برآمد ہونے والی کتابوں میں سے ملنے والے دو  طبی نسخوں سے ہوئی ہے۔  بدھ مت کے مخطوطات دریافت ہونے والی سائٹس کا احاطہ کیا گیا ہے جہاں گلگت لائبریری دریافت ہوئی تھی وہ آج ایک مسلم قبرستان کی جگہ بن گئی ہے۔
  آسکر وان ہنبر کے بقول 1929ء  میں مقامی لوگوں  نے اگ جلانے والی لکڑی کے لیے گلگت میں جب کھودائی کی تو انہیں زمین کے اندر ایک نہایت انوکھا خزانہ  ملا جو قدیم زمانے کی ایک لائبریری تھی جہاں سے بہت بڑی تعداد میں کتابیں ملیں مگر دریافت ہونے کے فورا بعد ان کا ایک بڑا  حصوہ ضائع ہوگیا۔  مقامی لوگ جنہوں نے یہ کتابوں حاصل کی تھیں وہ ان نایاب کتابوں کی قیمت کو پہچان نہیں سکے۔  اس لیے انہوں نے برج کے پتوں پر لکھی گئی ان کتابوں کو اپنے مکانات کے چھتوں کو تعمیر کرنے میں استعمال کیا اور ایک بڑے حصے کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا البتہ خوش قسمتی سے قابل ذکر تعداد میں کچھ قدیم کتابیں ٹوٹی  حالت میں بچ گئی تھیں۔ جن میں ان امراء اور بادشاہوں کے نام لکھے گئے ہیں جنہوں نے بدھا کے مجسموں کو پہاڈی چٹانوں پر بنوانے کے لیے چندہ دیا تھا۔ ریاست بلور کے دور میں یہ علاقہ بدھ مت کا مرکز بن گیا تھا۔ بلور ریاست کو بیرونی جارحیت کا خطرہ رہتا تھا خاص طور پر ریاست بلور کےحکمرانوں کو اکثر تبت سے جارحیت کا خطرہ رہتا تھا اس لیے وہ چین کے ساتھ اتحاد کرکے تبت کا مقابلہ کرتے تھے۔
اس اتحاد کو توڑنے کے لیے تبت نے 722AD میں گلگت پر حملہ کیا تو  گلگت کے حکمران
Mo-kin-Mung
نے چین کے بادشاہ سے مدد  طلب کی۔
  یاتری ہوئ – چو ، آیو ہمیں بتاتے ہیں  کہ  بلور ریاست کا بادشاہ تبتیوں کے حملے سے قبل ہی لیٹل بلور کی طرف بھاگ گیا تھا جب کہ عام لوگ اور امراء گریٹ  بلور میں تبت کے زیر کنٹرول رہے۔
جاری ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button