کالمز
وفاق کے ساتھ گلگت بلتستان میں الیکشن
تحریر: تقی آخونزاد
گلگت بلتستان میں ایک موثر طبقہ وفاق کے ساتھ گلگت بلتستان میں الیکش کرانے کے حوالے عرصے سے متمنی چلے آرہےہیں اور ان کا خیال ہیں کہ اس سے جماعتوں میں سیاسی کارکنوں اور پارٹی کے ساتھ وابسطہ رہنماؤں کی قدر و منزلت برقرار رہینگے اور امیدوار برائے فروخت کا جو سلسلہ جاری ہے رک جائے گے اس طرح سے جماعتوں میں قربانی دینے والوں کو ہی موقع ملتے ہیں۔اور قومی دھارے میں شامل ہونے جمہوری اور سیاسی رویے اور کلچر پنپنے میں مددگار ثابت ہوگی۰ یہ عوامل بظاہر اس وقت وفاق کے ساتھ الیکشن کرانے کے لئے جواز کے طور پر پیش کئے جارہے ہیں
ماضی میں بھی پہلی مرتبہ گلگت بلتستان میں ایف،سی،آر جیسی کالا قانون کے ہوتے ہوئے ایوب خان کا بنیادی جمہوریت نظام کے تحت پورے ملک کے ساتھ گلگت بلتستان میں بھی الیکشن منعقد ہوا اور جنرل یحیی خان نے بھی ناردرن ایریاز مشاورتی کونسل کے انتخابات کرایا ،بعد میں بھٹو نے 1975 میں ناردرن ایریاز کونسل کے الیکش کرائے-جنرل ضیاالحق نے جب اقتدار سنبھالا تو پورے ملک میں منتخب ایوانوں کو تحلیل کردی گئی جبکہ گلگت بلتستان میں ناردرن ایریاز کونسل کو مدت پوری ہونے پر جب ملک کے دیگر صوبوں میں بلدیاتی الیکشن کرائے گئے تو جنرل فیض علی چستی کے زیر نگرانی گلگت بلتستان میں بھی ناردرن ایریاز کونسل کے ساتھ پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1979 میں ترامیم کرکے یہاں نافذ کیا اور انتخابات منعقد ہوئے یہ تسلسل 1994 تک رہا۔ مسلم لیگ کی وفاق میں1990 میں حکومت بنی تو گلگت میں ناردرن ایریاز کونسل کی حلقے میں ردوبدل پر احتجاج ہوئے جس کے وجہ سے بہت سے حلقوں میں بائکاٹ کے سبب نشستیں خالی رہیں اور ساتھ سیاسی افراتفری میں بہت شدت آئی جس کا ردعمل بلتستان میں بہت محسوس کئے گئے.
نواز شریف کی پہلی حکومت کی قبل ازوقت تحلیل کے بعد معین قریشی نگران وزیر اعظم بنے تو گلگت میں حالات بہت خراب ہوئے اور وزیر اعظم کو ایک تفصیلی بریفینگ دی گئی اس پر معین قریشی نے سمجھا کہ اس کو سیاسی طور پر اصلاحات سے ہی حل کیئے جائیں اس لئے معین قریبی نے جنرل ریٹائیرڈ شفیق کو چیف ایگزیکٹیو بنا کر بیجا ،لیکن وزارت امور کشمیر کے بابوؤں نے رخنہ ڈالنا شروع کیا نگران حکومت کی مدت چونکہ مختصر تھی اس لئے کما حقہ اصلاحات نہیں لاسکے البتہ بینظر شہد کی حکومت بنی تو گلگت بلتستان میں بھی بائکاٹ کی وجہ سے جو تناو پیدا ہوا اس کے شدت کو ختم کرنے کے ساتھ معین قریشی کی ابتدائی کاوش پر عمل درآمد کرتے ہوئے ناردرن ایریاز لیگل فریم ورک آڈر میں ترامیم کراکے ناردرن ایریاز کونسل کو تورڑ کرجماعتی بنیاد پر قبل از وقت الیکشن کرایا جبکہ بلدیاتی اداروں کو مدت پوری کرنے دی اور بائکاٹ سے خالی نشسشتوں پر ہی ضمنی الیکشن ناردرن ایریاز کونسل کے ساتھ ہوئے اس طرح پیپلز پارٹی نے جمہوری عمل کو بلدیاتی اداروں میں جاری رکھیں اور بلدیاتی اداروں نے اپنی مدت پوری ہونے پر اختیارات ایڈ منسٹیٹرز کے حوالے کیے اور دو سال بعد 1999میں ناردرن ایریاز کونسل کے ساتھ پھر بلدیات کے بھی الیکشن کے لئے شڈول جاری ہوئے اور کاغذات نامزدگیاں جمع کرائے ہی تھے کہ جنرل مشرف اقتدار پر آگئے اور پورے ملک میں اسمبلیاں تورڑ کر ایمرجنسی نافذ کیا۔
گمان یہ تھا کہ گلگت بلتستان میں بھی الیکشن ملتوی ہونگے لیکن مشرف کی ایمرجنسی یہاں کی سیاسی عمل پر اثر انداز نہیں ہوا بلکہ جنرل مشرف کو میڈیا نے ایک اہم پرس کانفرنس میں سوال کیا کہ آپ نے پورے ملک میں ایمرجنسی نافذ کیا ہے جبکہ ناردرن ایریاز میں انتخابات ہورہے ہیں تو جنرل مشرف نے جواب دیا کہ "جہاں جمہوریت اور سیاسی عمل چلے تو چلنے دینا چاہیے” جنرل مشرف نے گلگت بلتستان میں ہونے الیکشن کو اپنی حکومت کا جمہوریت اور سیاست کے مخالف نہ ہونے کے دلیل اور ثبوت کے طور پر پیش کرتے رہیں اور ان کی اس دلیل کو اس وقت ملکی اور بین الاقومی سطح پر بہت پزیرائی ملی کہ فوج پاکستان میں کلی طور پر جمہوریت اور سیاسی عمل کو جاری رکھنے میں مزاحم نہیں -انتخابات کے لئے چونکہ مسلم لیگ ن نے اپنی حق میں حالات سازگار بنائیں تھے اور نتائج بھی مسلم لیگ اور تحریک جعفر یہ کی جیت کی صورت میں سامنے آگئے اور دونوں جماعتوں نے ملکر حکومت سازی کی اس الیکشن میں جنرل مشرف اور ان کی فوجی مشیر وں نے کو ئی مداخلت نہیں کیے بلکہ شفاف اور منصفانہ طریقے سے انتخابی اور حکومت سازی کے عمل کو پرامن اور نتائج کے مطابق میں عمل درآمد میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے اپنے سخت ترین حریف مسلم لیگ نواز کو ناردرن ایریاز کونسل کی سپیکر شب اور کئی منتخب افراد کو مشیری کے منصف دلانے میں کھلی غیر جانبداری سے پیش آئے، مشرف نے اس پیشرفت کو اپنی حکومت کی جمہوریت پسند اور غیر جانبدار ہونے کا دنیا کو اچھا تاثر دیا ۔لیکن دو ہزار نو میں پیپلز پارٹی نے گورننس آڈر کے تحت انتخابات کرائے اس میں پہلی دفعہ گلگت بلتستان میں بلدیاتی الیکشن کو التوا میں ڈال دیں ابھی تک التواء کا شکار ہے کیونکہ جس خوف اور ڈر سے گورنر قمرالزمان کائرہ نے اس وقت بلدیاتی انتخابات ملتوی کیاجو گلگت بلتستان کے سیاسی مزاج اور ماحول کے قطعی خلاف تھا مگر وفاق اور وہاں کے اپنے سیاسی مصلحتیں ہیں جو ہم پر غیر فطری لاگو ہوگئے اب وفاق کے ساتھ الیکشن سے وفاقی جماعتوں کی وہ توجہ اوردلچسپی نہیں رہیگی جو ایک وفاقی برسر اقتدار پارٹی اپنی جماعت کی حکومت بنوانے کے لئے گلگت بلتستان میں الیکش مہم کے دوران یا پہلے ترقی اور عوامی خواہشات کو مد نظر رکھکر ووٹرز کو ترغیب دینے کے لئے بڑے بڑے اعلانات کرتی ہے وہ وفاق کے ساتھ الیکشن ہونے کی صورت میں بلکل ممکن نہیں۔
ہم سب اگر گلگت بلتستان کی ترقی کی رفتار پر نظر دوڑائیں تو یہ بات واضح ہوجائیگی کہ جب سے جماعتی بنیاد پر انتخابات ہونے شروع ہوئے ہیں تمام قومی جماعتیں سیمت وفاق میں حکومت والی پارٹی نے ووٹ کے خاطر دل کھول کر گلگت بلتستان میں ترقیاتی امور میں نمٹائیں ہیں جبکہ ہمیں یہ باورہونا چاہیے کہ قومی سیاست میں ہماری شراکت داری صفر ہے جس کے وجہ سے وفاقی الیکشن کے موقع پر پاکستان کے سطح کی قیادت اور جماعتوں کی نظر التفات نہیں مل سکی گی ہم کسی ایک جماعت یا شخص کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے گلگت بلتستان کے لاکھوں عوام کے ساتھ کہیں زیادتی تو نہیں کررہےہیں؟ایک اہم نقطہ یہ بھی ہے کہ وفاق کی توجہ اور دلچسپی نہ ہونے کی صورت میں کسی واحد جماعت کو اکثریت نہیں مل سکی گی گلگت بلتستان اسمبلی کی مینڈیٹ تقسیم ہونے کا قوی امکان رہیگی جس کا خمیازہ تمام سیاسی جماعتیں سیمت قیادت اور کارکن بھگتیں گے اور اس کی تلافی ممکن نہیں ہونگے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی الیکش ہونا ہو تو سیاسی ہوا کسی مخصوص جماعت کی حق میں چلواتی جسے دیکھتے ہوئے پورے ملک میں 50 کے قریب امیدوار فار سیل کے لئے دستیاب ہوتےہیں یہی جیتنے والی جماعت میں شمولیت کرتے ہیں یہی سلسلہ گلگت بلتستان میں شروع ہوگا یعنی آپ وفاقی سیاسی شرح سے بجنا مشکل ہے یہاں ایک واقع قارئین کے نظر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دوہزار آٹھارہ کا الیکش سے قبل گلگت بلتستان کے ایک وزیر جس کا تعلق مسلم لیگ سے تھا ملکی سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے کہ عمران خان کی جیت یقینی ہے،تحریک انصاف کے اسلام آباد میں ایک رہنما کے پاس آکر اپنی ہی حکومت اور وزیر اعلی کے خلاف عدم اعتماد لانے کے لئے ملاقات کی اورمرکز نے ہمیں مطلع کیا ہم نے فوری طور متعلقہ وزیر کی باتوں کو شعبدہ بازی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پہلی بات تحریک انصاف کے پاس مطلوبہ تعداد نہیں، جب وزیر اعلی ہماری جماعت سے نہ ہو تو موجودہ سی ایم سے ہماری کیا مخاصمت،تیسری بات گلگت بلتستان میں دوسال بعد الیکشن ہو رہے ہیں ساتھ گلگت بلتستان میں جمہوریی روایت ابتدائی مرحلہ میں ہے اس لئے ایسا عمل وہاں جمہوری عمل پر گہری منفی اثر پڑیگی ۔لہذا سنجیدگی اور متانت سے سوچیں کہ وفاق کے ساتھ گلگت بلتستان میں الیکش کرانے کے کیا منفی مضمرات ہونگے شخصی اور جماعتی سیاست کے قطع نظر ہمیں گلگت بلتستان کو سامنے رکھنا ہوگا۔