خود آگہی
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
( علامہ محمد اقبال)
علامہ اقبال کی اس شعر پر غور کریں تو زندگی کا کھو ج لگانے کے لیے انسان کو سب سے پہلے اپنے من میں غوطہ لگا کر یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ میری پسند، نا پسند، شوق، اچھی اور بری عادات، خوبیاں، خامیاں، خواہشات اور احساسات کیا ہیں۔اور خود سے یہ سوال پوچھنا کہ میرا کوئی بھی عمل "کیا؟ کیسے؟اور کیوں؟ ہے۔اور ان سب کی بنیاد پر اپنے آپ کو تبدیل کر کے ایک مکمل انسان بنانا خود آگاہی ہے اور اقبال کے اس شعر میں خو د آگاہی کی طرف اشارہ ہے۔ خود آگاہی کیا ہے؟ ذیل کی تحریر میں اس کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔
خود آگاہی(Self -awareness )
خود آگاہی زندگی کی ایک بنیادی مہارت ہے۔ اس کا مطلب صرف اپنی شناخت کرنا، اپنے آپ کو پہچاننا اور اپنی ذات کا شعو ر رکھنا ہی نہیں ہے بلکہ اس بات کو بھی سمجھنا ہےکہ ہمارے ساتھ رہنے والے لوگ ہمارے بارے میں کس طرح کے مثبت یا منفی رائے رکھتے ہیں- لہذا ہم اپنے خیالات احساسات اور جذبات کو جانچنے اور ان سے نتیجہ اخذ کرنے کی بنیاد پر ہی خود کو پہچان سکتے ہیں اور دوسروں کا اپنے بارے میں رائے کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مزید برآں، اپنے ذات میں موجود مظبوط اور کمزور پہلووٗں کو پرکھ کر اپنے آپ میں تبدیلی لانے اور اپنے خواہشات اورجذبات پر قابو رکھنے کی صلاحیت بھی خود آگاہی کے زمرے میں آتے ہیں۔
خو دآگاہی کو فروغ دے کر انسان اپنے آپ پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور اپنے اعمال، خیالات اور جذبات کو مسلسل پرکھ کر وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنے کی کو شش کرتا ہے۔ جدید نفسیات خودآگاہی کو اندرونی اور بیرونی لحاظ سے دیکھتی ہےاور اس کے مطابق اندرونی خود آگاہی سے مراد خود کو سمجھنا اور اپنے رویوں سے سیکھنا ہے، جبکہ بیرونی خود آگاہی خود کو دوسروں کی آنکھ سے دیکھنا اور خود میں تبدیلی لانا ہے۔ اب اس فلسفہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرح اندرونی اور بیرونی خود آگاہی پر عبور حاصل کرتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔اس مقصد کے لیے انسان کواپنے شخصیت میں موجود اللہ تعالٰی کی دی ہوئی تین نعمتوں کو سمجھنا اور ان کو بہتر طریقے سے استعمال کر نے کے بارے میں جاننا ہو گا۔ یہ تین نعمتیں انسا ن کی اپنی جسم، ذہن اور دل ہیں۔ ان تینوں کے درمیان واضح توازن اور ہم آہنگی انسان کو صحت مند، مطمئن اور خوش رہنے میں مدد دیتا ہے۔ان تینوں کے موثر استعمال کے لیے پہلے ان کا صاف ہو نا بہت ضروری ہے۔
انسان کا صاف جسم اس کو صحت مند اور تندرست رکھنے میں مدد دیتاہے جسم اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے ، متوازن غذا کھانے ، ورزش کرنے اورٹھیک سے سونے سے انسان ایک صحت مند اور تندرست شہری بن سکتا ہے اور اپنے اور دوسروں کے لیے کچھ کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ لہذا خود آگاہی کا پہلا مرحلہ انسان کے اپنے وجود یعنی صاف جسم کے بارے میں سوچنا اور اس کا خیال رکھنا ہے ۔
ذہن کو صاف رکھنے کے لیے اس میں موجود خیالات اور سوچوں کو پرکھنا لازمی ہے ۔انسانی ذہن اچھی اور بری خیالات کا مجمع ہے۔ لیکن اگر اچھے خیالات پر توجہ دیں توبرے خیالات دور ہو جاتے ہیں۔مثبت سوچ انسان کو اچھے اعمال اورمنفی سوچ برے اعمال کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہ انسان کے خیالات ہی ہیں جو انہیں خوش، مطمئن، غمگین، ناخوش،حاسد، انتقام لینے والا اور جارحانہ وغیرہ بنا دیتے ہیں۔لہذا اپنے آپ کو خوش رکھنے اور دوسروں کا خیال رکھنے کے لیے اپنے ذہن کو برے خیالات سے پاک کرکے اچھے خیالات کا مسکن بنانا ضروری ہے۔ذہن اگر پاک ہو تو دل میں بھی دوسروں کے لیے محبت اور خلوص پیدا ہوتی ہے ۔ صاف دل رکھنے والا انسان نفرت کی بجائے محبت کے بارے میں سوچتا ہے ۔غلطیوں پر معافی دیتا ہے اور دوسروں کی مدد کو اپنا شیوہ بنا تا ہے۔ اور اس طرح لوگوں کے دلوں میں اپنا گھربنا لیتا ہے۔
جب انسان اپنے جسم ، ذہن اور دل کی صفائی کے لیے اپنے آپ پر توجہ دیتا ہے تو اس کے اندر خو آگاہی کی مہارت پروان چڑھتی ہے جو کہ ایک نعمت ہے اور زندگی کی طرح ایک جہدمسلسل بھی ہے۔ کامیاب انسان وہ ہے جو اپنی غلطیوں سے سیکھ کر خودآگاہی کی منزلیں طے کر کے انسانیت کے اعلٰی درجے تک پہنچتا ہے اور ایک کامیاب معاشرے کا حصہ بنتا ہے جس کی نشانی یہ ہے کہ اس میں رہنے والا ہر شخص دوسروں کو تبدیل کرنے کی بجائے تبدیلی کا آغاز خود اپنی ذات سے عملی طور پر کر کے اپنی عقل مندی کا ثبوت دیتا ہے۔کیونکہ انسان کی عقل مندی کا راز خو د کو بدلنے میں ہے اس کی دلیل رومی کےذیل اقتباس میں واضح طور پر دی گئی ہے۔
"کل میں ہوشیار تھا، اس لیے میں دنیا کو بدلنا چاہتا تھا۔ آج میں عقلمند ہوں اس لیے خود کو بدل رہا ہوں۔” ( رومی)