کالمز

ڈاکٹر مبارک علی کی تاریخ نویسی

ڈاکٹر مبارک علی صاحب عصر حاضر کے سرکردہ مورخین میں سے ایک شمار ہوتے ہیں۔ تاریخ نویسی، تاریخ پاکستان و ہند، مسلم تاریخ، جدیدیت، بعد جدیدیت اور تہذیب و ثقافت پر ان کی لاتعداد کتابیں منظر عام پر آئی ہیں۔ ان کی کتب و رسائل اور مقالات کے قارئین کی تعداد بھی شمار سے باہر ہے اور ان قارئین میں تحقیق کار، مصنفین، تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی شامل ہیں۔ چنانچہ، بحیثیت تاریخ نویس ان کی اچھی شہرت و قبولیت کے پیش نظر یہاں ان کی تاریخ نویسی کی چند خصوصیات کا ذکر کیا جاتا ہے تاکہ قارئین کے سامنے بالعموم تاریخ نویسی اور با الخصوص ڈاکٹر مبارک علی کی تاریخ نویسی کے خط خال کسی حد تک واضح ہو سکیں۔
ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ تاریخ، عمرانیات اور تہذیب و ثقافت کے کئی ادق اور پیچیدہ مسائل کو آسان زبان میں غیر مبہم طریقے سے بیان کرتے ہیں جنہیں عوام و خواص سب بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔ جب قارئین تاریخی حقائق اورمورخ کے نقطہ ہائے نظر کو سمجھ لیتے ہیں تو انہیں علم تاریخ سے کماحقہ فائدہ حاصل ہوتا ہے اور اس طرح وہ اپنے لئے درست لائحہ عمل متعین کر سکتے ہیں۔ یوں مطالعہ تاریخ کے ثمرات حاصل کرنے کی راہیں کھل جاتی ہیں۔
ڈاکٹر مبارک علی مغل تاریخ و ثقافت پر تحقیق کر کے جرمنی سے پی۔ ایچ۔ ڈی کر چکے ہیں۔ اس لئے ڈاکٹر موصوف جب مغل تاریخ و ثقافت پر لکھتے ہیں تو جہاں حالات و واقعات کو معروضی انداز میں پیش کرتے ہیں وہاں اس ضمن میں ان کا تجزیہ و تبصرہ بھی صحتمند دکھائی دیتا ہے اور قارئین زیر بحث موضوع کو بڑی حد تک سمجھ سکتے ہیں۔ نیز قارئین کے سوالات اور الجھنوں کا کافی و شافی جواب مل جاتا ہے۔
ڈاکٹر موصوف کی تحریر کا ایک امتیازی وصف یہ بھی ہے کہ وہ کسی ادارے، گروہ یا با اثر شخصیات کے دباؤ میں آئے بغیر معروضی حالات اور اصل حقائق کو بلا کم و کاست بیان کرتے ہیں اور ان پر اپنی آزادانہ، غیر جانب دارانہ اور معقول را ئے دیتے ہیں۔ اس طرح قارئین تاریخی حقائق کی اصلیت کا بآسانی کھوج لگا سکتے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے اذیتوں اور پریشانیوں کا بھی سامنے کیا ہے جس کی شہادت ان کی تحریروں سے ملتی ہے۔ لیکن وہ حق گوئی و بے باکی کے ساتھ ہر گز سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں۔ وہ گویا علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تعبیر پیش کرتے ہیں جس میں وہ کہتے ہیں کہ
شاعر  دلنواز   بھی  بات  اگر   کہے   کھری
ہوتی ہے اس کے فیض سے مزرع زندگی ہری
بلاشبہ مبارک علی اپنے اس وصف کے کو روبہ عمل لا کر انسانی معاشرے کی کھیتی کو سرسبز و شاداب رکھنے کی پیہم کوشش کر رہے ہیں۔ اگر قارئین ان کی کتب و رسائل اور مقالوں کا بالاستعاب مطالعہ کریں گے تو انہیں اپنے مستقبل کی زندگی کو خوشگوار بنا سکیں گے۔
تاہم، دیگر بہت سے مصنفین و مؤرخین کی طر ح ڈاکٹر صاحب کی تحریروں میں بعض قابل اصلاح نکات بھی پائے جاتے ہیں جن کی نشاندہی ضروری ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی صاحب بعض مرتبہ تنقید و تنقیص میں بہت آگے جاتے ہیں اور کسی موضوع کو ضبط تحریر میں لاتے ہوئے تاریخی حقائق اور واقعات کی تفصیلات بیان کیے بغیر ان پر رائے زنی زیادہ کرتے ہیں جس کے سبب نفس مضمون میں تشنگی باقی رہتی ہے۔ بلکہ ان کی آزاد منشی، زور قم اور نظریاتی پاسداری کے سبب تاریخی حقائق پر ان کا اپنا نقطہ نظر غالب آتا ہے اور تاریخیت  (historicity)  دب کر رہ جاتی ہے۔ نیز یہ کہ ان کی بعض آراء حقائق سے لگا نہیں کھاتی ہیں اور مبالغے کے زمرے میں آتی ہیں۔ ایسے میں قارئین کو تاریخ کو سمجھنے اور سماجی مسائل کا حل دستیاب ہونے کے بجائے لا محالہ الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
الغرض، من حیث المجموع، ڈاکٹر مبارک علی صاحب کی کتب و رسائل اور مقالات و مکالمات دور جدید میں درست تاریخ نویسی کی روایت کو پرواں چڑھانے میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں۔ نیز مستقبل میں بھی ان کی تحریریں، یقیناً، قارئین اور بالخصوص نوجوان نسل میں درست تاریخی شعور (historical thinking) بیدار کریں گی اور  اس طرح پورے معاشرے کو صحتمند بنیادوں پر تشکیل دینے میں معاون و مددگار ثابت ہوں گی۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button