کالمز

کتاب: ’عکسِ گلگت بلتستان‘

تصنیف و تالیف: شیر باز علی خان برچہ
تبصرہ و تجزیہ: ڈاکٹر نیک عالم راشدؔ

گلگت۔ بلتستان عرصہئ درازتک دنیا کے باقی حصّوں سے منقطع، تہذیب و تمدّن سے دُور اور علم و ادب سے بہت حد تک بے بہرہ رہالیکن آہستہ آستہ اس خطّے میں علم کی روشنی پھیلنے لگی، خواندگی عام ہونے لگی، تعلیم و تعلّم کی روایت فروغ پانے لگی اور پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ افراد کی تعداد روز افزوں بڑھنے لگی۔یہاں تک کہ عالموں، دانشوروں اور لکھاریوں کی جمعیّت تیار ہوئی جس نے تصنیف و تالیف اور تخلیق و تحقیق کی طرح ڈالی اور یوں اس کی کوششوں سے کتب و رسائل کی ایک قابلِ لحاظ تعداد طبع ہو کر منظرِ عام پر آئی۔اس جمعیّتِ دانشوران و قلمکاران کا ایک سرگرم اور ممتاز رکن جناب شیرباز علی خان برچہ صاحب بھی ہیں۔قدرت نے انہیں بے پناہ صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔ وہ بیک وقت محقّق، مؤرّخ، مترجم اور صحافی ہیں اور ادبی اور سماجی پروگراموں کے حوالے سے قیادت کے مقام پر بھی فائز ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک مخلص، ملنسار، بردبار اور علم و دانش کے معاملات میں دستِ تعاون دراز کرنے والے ایک علم دوست اور ادب پرور انسان بھی ہیں۔ان کی لاتعداد طبع زادکتب و مقالات اور ترجمے منظرِ عام پر آکر قبولیت و پذیرائی حاصل کر چکے ہیں۔شیرباز صاحب کی ان علمی تخلیقات وتحقیقات میں سے ایک زیرِ نظر کتاب ’عکسِ گلگت بلتستان‘ بھی ہے جو اپنی نوعیت کی اوّلین کتاب ہے جس میں گلگت بلتستان کے طبعی جغرافیائی، تاریخی،آثاریاتی،سماجی و لسانی، انتظامی و نتخابی پس منظر اور عصری صورت احوال کو کمالِ مہارت،محنت ِ شاقہ اور عرق ریزی سے مرتّب و مدوّن کیا گیا ہے۔

یہ کتاب دو حصّوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصّے میں گلگت بلتستان کے جغرافیے،تاریخ، آثارِ قدیمہ، تعلیم، صحت، توانائی، ادب، مذہب و ثقافت،لسانیات و نسلیات اور انتظامی و جمہوری اداروں کی ابتداء و ارتقاء سے بحث کی گئی ہے۔ جبکہ دوسرا حصّہ گلگت بلتستان اور اس سے متعلّق اردو میں لکھی گئی کتابوں، رسالوں اور انسائیکلوپیڈیاز کی ایک ضخیم کتابیات (Bibiliography) کے لئے مختص ہے۔پہلا حصّہ ۴۱۲ صفحات اور دوسرا حصّہ ۴۳۱ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس طرح یہ کتاب کل ۵۹۳ صفحات پر محیط ایک ضخیم کتاب بن گئی ہے جسے نارتھ پبلی کیشنز، گلگت نے ۳۱۰۲ء میں شائع کیا ہے۔در اصل، حصّہ اوّل ہی اس کتاب کی جان ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ حصّہ اوّل ہی اصل کتاب ہے۔ جبکہ حصّہ دوم تو محض کتب و رسائل کی ایک مبسوط ببلیوگرافی ہے۔تاہم اس کی اہمیّت و افادیّت مسلّم ہے۔
اگرچہ اس کتاب کے پہلے حصّے میں ارضِ شمال سے متعلّق کئی پہلوؤں پر سیرحاصل گفتگو کی گئی ہے جو اپنی جگہ وقیع ہیں اور اپنے متعلّقہ پہلو کے حدودِ اربعہ کو بیان کرنے اور قارئین کو وافر معلومات فراہم کرنے اور تخلیق وتحقیق کے نئے گوشے منظرِ عام پر لانے میں بڑی حد تک کامیاب ہے – جیسے طبعی جغرافیہ، تاریخ، آثارِ قدیمہ، جنگلی حیات، سیاحت، ثقافت، مذہب، لسانیات، نسلیات، معیشت اور سماجی سرگرمیاں – ان موضوعات پر دیگر مطبوعات میں بھی مواد د ستیاب ہے جنہیں زیرِ مطالعہ لا کر قارئین اپنی علمی پیاس بجھا سکتے ہیں۔ لیکن شیر باز صاحب کا اشہبِ خامہ ان میدانوں میں خوب دوڑاہے جو ہنوز تحقیق طلب ہیں اور ان پر قابلِ لحاظ مرتب و منظّم کام تا حال نہیں ہوسکا ہے۔ خاص طور پر جدید دور میں وقوع پذیر ہونے والے حالات، ان کی ابتداء و ارتقاء اور ان کی جزیات و کلیات کا تفصیلی تذکرہ شیر باز صاحب کی اس زیرِ نظر کتاب ’عکسِ گلگت بلتستان‘ کی قدر و قیمت میں بے حد اضافہ کرتا ہے اور بلا شبہ یہ تفصیلات کتاب ہٰذا کو ”کتابِ حوالہ“ (Reference book) بلکہ مستقبل کے لکھاریوں اور تحقیق کاروں کے لئے بنیادی ماخذ (Primary source) کا درجہ عطا کریں گی۔
گذشتہ ادوار میں بعض کتابوں کو بیک وقت ثانوی ماخذ (Secondary source) اور بنیادی ماخذ (Primary source) کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ جیسے ساتویں صدی ہجری /تیرہویں صدی عیسوی کے ممتاز فارسی مؤرّخ قاضی منہاج سراج جوزجانی (۳۹۱۱ء – ۰۶۲۱ء)کی کتاب ’طبقاتِ ناصری‘کا ابتدائی حصّہ ثانوی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ اس میں اسلام سے پیشتر ایران،یمن اور عرب کے بادشاہوں، انبیاء کرام ؑ کے حالات اور ابتدائی اسلامی تاریخ کو زیرِ بحث لایا گیا ہے جبکہ اس متعلّق دیگر قدیم اور ہم عصر کتابوں میں زیادہ معتبر اور مستند معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں اور ’طبقاتِ ناصری‘کا یہ حصّہ محض ان واقعات کی تکرار سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔اس لحاظ سے کتاب کا یہ حصّہ ثانوی ماخذ میں شمار ہوتا ہے۔جبکہ ’طبقات ناصری‘ کا نصف ِآخر ہم عصر حالات سے بحث کرتاہے اور اس زمانے کے چشم دید حالات کو زیادہ اعتماد اور تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ کتاب کا یہ حصّہ مؤرّخین کے نزدیک بنیادی ماخذ کا حکم رکھتا ہے۔ اس لئے آج بھی منہاج سراج کے عہد یعنی تیرہوں صدی عیسوی پر یہ حصّہ بنیادی ماخذسمجھا جاتا ہے۔
بیسویں صدی عیسوی کے نصفِ اوّل کے اواخرمیں ایک ہندوستانی مصنّف رائے بہادر دیوان چند اوبھرائی کی انگریزی زبان میں لکھی ہوئی کتاب The Evolution of North-west Frontier Province (Calcutta, 1938) بھی بطور مثال پیش کی جاسکتی ہے جس کا ابتدائی حصّہ ثانوی اور آخری حصّہ بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ ابتدائی حصے میں مصنّف نے قدیم تاریخ کو محض کتاب کی ترتیب و تشکیل کی خاطر یا زیب داستان کے لئے زیرِ بحث لایا ہے جس کی قدیم اور معتبر کتبِ تاریخ میں بہتر تفصیلات دی گئی ہیں۔ جبکہ اس کتاب کا آخری حصّہ جو کتاب کے بیشتر حصّے کا احاطہ کرتا ہے اور برِّ صغیر ہند اور شمال مغربی سرحدی علاقوں کی جدید اور ہمعصر سیاسی، انتظامی اور آئینی و قانونی سرگرمیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس لئے کتابِ ہٰذا کا یہ حصّہ محقّقین و مصنّفین کے نزدیک بنیادی ماخذکا درجہ رکھتا ہے۔
آمدیم بر سرِ مطلب! جناب شیرباز علی خان برچہ صا حب کی زیرِ بحث کتاب ’عکسِ گلگت بلتستان‘ کو بھی ہم دو حصّوں میں بانٹ سکتے ہیں: ایک حصّہ، جیسا کہ اوپر ذکر آیا، جو تاریخ، جغرافیہ، آثارِ قدیمہ، مذہب، ثقافت، نسلیات و لسانیات وغیرہ کو زیرِ بحث لاتا ہے، ثانوی ماخذ کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ان موضوعات پر عموماً دیگر متعدّد کتب و رسائل میں تفصیلات دی گئی ہیں۔ لیکن ’عکسِ گلگت بلتستان‘ کا وہ حصّہ جو جدید دَور میں رونما ہونے والے واقعات و حالات سے بحث کرتا ہے بنیادی ماخذ کا حکم رکھتا ہے۔کیونکہ ایسی تفصیلات دیگر کتابوں اور رسالوں میں نہیں ملتی ہیں: جیسے گلگت بلتستان میں بیسویں صدی اور خاص طور پر اس کے نصفِ آخر اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے تک کی سیاسی، انتظامی، جمہوری، عسکری، تعلیمی، ادبی، صحافتی و مواصلاتی سرگرمیوں، ان کی ابتداء و ارتقاء اور عصری احوال پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ اور اس کے بہت سے گمنام گوشوں کو منصّہئ شہود پر لایا گیا ہے۔چنانچہ فاضل مصنّف نے نومبر ۷۴۹۱ء میں گلگت میں قائم ہونے والی سولہ روزہ عبوری مقامی حکومت کے روزانہ کاموں اور سرگرمیوں، نظامِ عدل، عسکریات اور ان کا تاریخی و عصری جائزہ، سیاست اور اس ضمن میں سیاسی پارٹیوں اور تحریکوں، جمہوری اداروں، مشاورتی کونسل، ناردرن ایریاز کونسل، ناردرن ایریاز لیجیسلیٹیو کونسل، ۹۰۰۲ء کے صدارتی پیکیج، داخلی خود مختاری اور ان کونسلات کے انتخابات کی تفصیلات وغیرہ کو بڑی جامعیّت اور علمی طریقے سے مرتّب و مدوّن کیا ہے۔ نیز قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ شیرباز برچہ صاحب کی اردو تحریربھی ماشاء اللہ خوبصورت،سادہ و شستہ، سلیس اور قابلِ فہم ہے۔ اسلوبِ نگارش کے اعتبار سے وہ سرسیّد، حالیؔ اور مولوی عبد الحق کے اسلوب سے قریب تر نظر آتے ہیں۔
چند کلمات کتاب کے حصّہ دوم کے متعلّق بھی پیشِ خدمت ہیں۔ جیساکہ شروع میں کہا گیا ہے کہ یہ حصّہ کتابیات پر مشتمل ہے اور اس کے لئے ”قاموس الکتب“جیسی با معنی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جس سے مصنّف کی وضع اصطلاحات جیسے مشکل فن میں مہارت کی نشاندہی ہوتی ہے۔اس کتابیات میں مصنّف نے اردو میں مطبوعہ اُن کتابوں، رسالوں اور انسائیکلوپیڈیاز کی طویل توضیحی فہرست دی ہے جس میں مصنّف کے نام، کتاب یا رسالے کے نام، اشاعت کے مقامِ، ناشر کے نام اور تاریخ اشاعت کا اہتمام کیا گیا ہے اور مصنّف کے نام کے اعتبار سے ابجدی ترتیب سے اسے مرتّب کیا گیا ہے اور ساڑھے پانچ سو سے زیادہ مطبوعات کی ضخیم کتابیات تیار کی گئی ہے جو یقیناً ایک محنت طلب مگر مفید مطلب کام ہے۔
الغرض، اس بنیادی علمی کام، جو ’عکسِ گلگت بلتستان‘ کے نام سے کتابی صورت میں تشکیل پایا ہے،کو بطریقِ احسن انجام دینے اور اسے ایک بنیادی ماخذ کی حیثیت حاصل ہونے پر مصنّف ممدوح کو ہدیہئ تبریک پیش کیا جاتا ہے۔امید ہے کہ اس کتاب کی بارِ دیگر بہتر طباعت و اشاعت کا اہتمام کیا جائے گا تاکہ قارئین اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہو سکیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button