کالمز

خانقاہ کربوغہ شریف میں دن کیسے گزرتا ہے

خاطرات : امیرجان حقانی

خانقاہوں کا اپنا مستقل نظم ہوتا ہے تزکیہ و تربیت کی پوری ترتیب ہوتی ہے.
ہمارے حضرت شیخ الحدیث مفتی سید مختار الدین شاہ صاحب مدظلہ کی خانقاہ کربوغہ شریف ہنگو میں واقع ہے. میری دانست میں کربوغہ شریف پاکستان کی سب سے بڑی خانقاہ ہے جہاں سال بھر سالکین کا مجموعہ لگا رہتا ہے.انفرادی اور جماعتوں کی شکل میں لوگ کھنچتے چلے آرہے ہیں. تعلیم و تربیت اور تزکیہ نفس یعنی اصلاحی و روحانی تربیت کا مکمل نظام خانقاہ کربوغہ شریف میں موجود ہے. حضرت کے درجنوں خلفاء و متعلقین بھی آنے والے مہمانوں کی خدمت اور تربیت میں مامور ہیں. 
آج اپنا مشاہدہ آپ سے شئیر کررہا ہوں کہ یہاں پورا دن کیسے گزرتا پے. انتہائی اختصار کیساتھ دن گزرنے کی روئیداد لکھ رہا ہوں تاکہ آپ خود کو لاکھوں میل دور ہونے کے باوجود بھی یہاں محسوس کریں. 
.
خانقاہ کربوغہ شریف میں دن کا آغاز تہجد کے وقت سے ہوتا ہے. نماز فجر سے دو گھنٹے پہلے خانقاہ میں موجود تمام سالکین کو جگایا جاتا ہے. پھر جامعہ زکریا کی مسجد سالکین سے بھر جاتی ہے. کوئی نماز تہجد پڑھ رہا ہے. کوئی تلاوت میں مصروف ہے. کوئی ذکر کررہا ہے. کوئی سلسلہ چشتیہ کے بارہ تسبیحات سے اللہ اللہ کی ضربیں لگا رہا ہوتا ہے. کوئی لطائف قلب، روح، سر، خفی، اخفی اور نفس کی مشق میں لگا ہوا ہے. کوئی پاس انفاس کررہا ہوتا ہے. کہیں پر مراقبات کا سلسلہ جاری رہتا. مراقبہ موت ہوتا ہے. مراقبہ دعائیہ، مراقبہ انعامات الہیہ وتقصیرات خود اور مراقبہ خیال وغیرہ ہو رہے ہیں. مراقبہ موت کرتے ہوئے دھاڑے ماری جاری ہیں. یا پھر وہ اعمال و وظائف جو حضرت مفتی صاحب نے مختلف سالکین کو انفرادی طور دیے ہیں. نماز فجر سے پہلے خانقاہ کی مسجد کا سماں انتہائی روحانی اور پرکیف ہوتا ہے. اللہ کے سامنے گڑگڑانے کا جو مزہ یہاں آتا ہے شاید کہیں اور نصیب ہو. واللہ میرے جیسے گناہ گار بھی اللہ سے ہم کلام ہوجاتا ہے. کیفیات طاری ہوتیں ہیں. توبہ و استغفار سے ندامت کے آنسو جاری ہوتے ہیں.
ہر ماہ ایام بیض کے روزے رکھے جاتے ہیں اور ہر پیر اور جمعرات کو روزہ مسنون کا اہتمام بھی ہوتا ہے. سالکین و مریدین کا ایک پورا گروپ خدمت میں لگا رہتا پے. سحری و افطاری کا اہتمام ہوتا ہے. اس دفعہ ہمیں بھی ایام بیض کے روزے رکھنے کا موقع ملا. اسلامی تاریخ کی تیرھویں، چودھویں اور پندرہویں تاریخ کو یہ روزے رکھے جاتے ہیں. کربوغہ شریف میں بلاناغہ پورا سال ان روزوں کا اہتمام ہوتا ہے. بہر حال نماز فجر تک بہت سارے معمولات و ظائف مکمل ہوجاتے ہیں. تزکیہ و تصوف اور سلوک کے ذکر و اذکار اور وظائف و اوراد کا بہترین وقت ہوتا ہے.
نماز فجر کے بعد اجتماعی ذکر ہوتا ہے.حضرت مفتی صاحب کا کوئی خلیفہ مجلس ذکر کراتا ہے. دراصل یہ چشتیہ کے تسبیحات کا ذکر ہے. لا الہ الااللہ،الا اللہ، اللہُ اللہ اور اللہ کا ذکر ہوتا ہے. ایسے پرنور ماحول میں ذکر ہوتا تو روحانی کیفیات کا طاری ہونا معمول کی بات ہوتی ہے. سالکین وجد میں آجاتے ہیں اور دھاڑے مار مار کر رو رہے ہوتے ہیں. اس کے بعد سورہ یاسین کی اجتماعی تلاوت ہوتی ہے.پھر ایک پر اثر دعا کے ساتھ مجلس کا اختتام ہوتا ہے. نماز اشراق تک سالکین و مریدین اپنے مخصوص وظائف میں لگے رہتے ہیں جو حضرت مفتی صاحب نے عطا کیے ہوتے ہیں. ہر ایک کے وظائف الگ ہوتے ہیں. کوئی مناجاۃ الفقیر پڑھ رہا ہے کوئی صبح و شام کے مسنون اذکار کوئی کچھ اور، نماز اشراق کے بعد ناشتہ ہوتا ہے اگر روزہ نہ ہوتو، اس کے بعد پھر تعلیم ہوتی ہے. تعلیم بھی حضرت کی مختلف کتب کی ہوتی ہے. حضرت کا کوئی خلیفہ عقائد، عبادات کے احکام و فضائل، اللہ کے حقوق اور انسانوں کے حقوق اور دعوت دین  اور جہاد وغیرہ کے موضوعات پر حضرت کی کتب سے تعلیم ہوتی ہے اور جہاں ضرورت پڑھے  تعلیم کرانے والے مولانا صاحب سالکین کے لیے وضاحت کر دیتا ہے. نماز اور دیگر ضروری دینی احکامات کی سالکین کے درمیان آپس کی مشق بھی ہوتی ہے. پھر نماز چاشت ہوتی ہے. نماز چاشت کے بعد بھی کسی نہ کسی کتاب کی تعلیم ہوتی ہے. گیارہ بجے سے نماز ظہر تک مریدین اپنے دیگر کام بھی کرتےاور دوپہر کا کھانا بھی تناول کرتے ہیں.
نماز ظہر کے متصل بعد ختم خواجگان ہوتی ہے اس کے بعد حضرت مفتی صاحب دامت فیوضہم کا درس قرآن ہوتا ہے اور پھر سالکین کے خطوط دیکھتے ہیں. ان کے احوال پر غور کرتے ہیں. سوال پوچھتے ہیں .پھر ان کے لیے وظائف جاری کرتے ہیں اور نئے آنے والوں کو بیعت فرماتے ہیں. روزانہ درجنوں لوگ بیعت کے لیے ملک بھر اور بیرون ملک سے تشریف لاتے ہیں. ان کو ابتدائی معمولات دیے جاتے ہیں. اور پرانے سالکین حضرت کے ساتھ اپنے امور شئیر کرتے ہیں. اپنی کیفیات بتلاتے ہیں اور تصوف کے مزید اسباق وصول کرتے ہیں . یوں عصر ہوجاتی ہے.
 نماز عصر کے بعد خانقاہ کربوغہ شریف میں اجتماعی دورہ شریف کی محفل ہوتی ہے. ہر سالک پانچ سو مرتبہ رسول اللہ پر دورود شریف بھیجتا ہے. حضرت کا کوئی خلیفہ یا مرید درود شریف کی محفل کراتا ہے. رسول اللہ سے محبت کا بین ثبوت ہے. بلاشبہ اجتماعی درود کے علاوہ سینکڑوں کبھی ہزاروں سالکین لاکھوں مرتبہ رسول اللہ پر دورود و سلام کی بارش کررہے ہوتے ہیں.
نماز عصر کے بعد خدمت والے احباب اپنے کام میں لگے رہتے ہیں اور دیگر سالکین و مریدین اپنے شام والے انفرادی وظائف و معمولات شروع کررہے ہوتے ہیں.جو جامعہ زکریا کی لائیبریری جانا چاہیے تو وہاں چلا جاتا ہے. یا خانقاہ کے مہمان خانے میں بیٹھ کر حضرت مفتی صصاحب کی کتب کا مطالعہ کرتا ہے. نماز مغرب کے بعد چھ رکعات نماز آوابین ادا کی جاتی ہے، اس کے بعد سورہ واقعہ کی اجتماعی تلاوت ہو جاتی ہے. پھر وہی مسجد میں ہی ذکراللہ کی مجلس لگتی ہے. ذکر شریف کی یہ محفل انتہائی پرسوز، دلگداز، پراثر اور وجد آفرین ہوتی ہے. حضرت کا کوئی مجازخلیفہ ذکر کی مجلس کررارہا ہوتا ہے. اللہ اللہ کی ورد کا ایک مخصوص سماں بن جاتا ہے. ذکریہ کلمات کے درمیان کوئی اصلاحی و صوفیانہ کلام بھی شامل کیا جاتا ہے. یہ کلام کھبی عربی کا ہوتا، کھبی فارسی کا ہوتا ہے، کبھی اردو کا کبھی پشتو کا. ادھا گھنٹے پر مشتمل ذکر کی اس مجلس سے دل و دماغ معطر ہوجاتے ہیں. اللہ اور اس کے بندے کے درمیان حائل پردے ختم ہوتے جاتے ہیں. ایسا لگتا ہے کہ اللہ بالکل سامنے سے دیکھ رہا ہے. توبہ استغفار کی جاتی ہے. اللہ سے محبت و عقیدت کی دعائیں مانگی جاتیں ہیں. کبیرہ صغیرہ گناہوں سے توبہ کیساتھ آیندہ نہ کرنے کا عزم مصمم ہوجاتا ہے.
نماز عشاء سے پہلے سالکین کھانا کھاتے ہیں. عشاء کی نماز کے بعد سورہ ملک کی تلاوت ہوتی ہے. پھر سالکین آرام کرتے ہیں کیونکہ انہیں فجر سے دو گھنٹے پہلے جاگنا ہوتا ہے. یوں ایک خوبصورت دن کا اختتام ہوتا ہے اور اگلا دن شروع ہوتا ہے. یہ معمولات رمضان کے علاوہ سال بھر چلتے ہیں. رمضان کے معمولات خصوصی ہوتے ہیں. 
ذکر الہی اور دورد شریف و درس قرآن اور دیگر اوقات کی تمام مجالس میں اللہ کی عبادت و عقیدت ، رسول اللہ سے محبت، انسانیت کی خدمت کا عہد ہوتا ہے. فلاح دین و دنیا کا جذبہ اور اپنے متعلقین و مشائخ اور عزیز واقارب اور امت مسلمہ کے لیے اجتماعی دعا کی جاتی ہے.
خانقاہ کربوغہ شریف میں خوب ریاضت کا اہتمام بھی ہوتا ہے. عملی مجاہدہ ہوجاتا ہے. قلت طعام و نوم یعنی کھانے پینے اور سونے میں کثرت نہ کرنے کی تاکید کی جاتی ہے اور اس میں اعتدال اختیار کروایا جاتا ہے. قلت کلام اور قلت اختلاط مع الناس پر انتہائی زیادہ تاکید کی جاتی ہے. فضول اور لایعنی باتوں پر پابندی بھی ہوتی ہے اس کی جگہ قلت کلام کو کثرت ذکر سے تبدیل کر دیا جاتا ہے . قلت اختلاط مع الناس یعنی بے کار میں لوگوں سے زیادہ میل میلاپ سے بھی پرہیز کروایا جاتا ہے. تاکہ سالک زیادہ سے زیادہ روحانی منازل طے کرے اور حضرت مفتی صاحب اور خانقاہ سے استفادہ کرے. 
اسی طرح حصول ثمرات میں تعجیل یعنی جلدبازی سے روکا جاتا ہے. تصنع بالخصوص دینی معاملات میں تصنع و بناوٹ کی ممانعت کی جاتی ہے کہ سالک خود پر بناوٹی بزرگی طاری کرے، حسن پرستی اور بدنظری سے دوری اختیار کرکے معرفت الہی کا حصول ممکن بنانے کی ترغیب دی جاتی ہے.وساوس کا علاج بتایا جاتا ہے. اور یوں  مخالفت سنت اور مخالفت شیخ نہ کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے.
یہ معلوم بات ہے کہ ادب و احترام تصوف اور روحانیت کا رکن اعظم ہے. اس کے بغیر یہ راہ طے نہیں ہو پاتی. نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم سے لے کر آج تک کے مشائخ و عظام اور علماء کا ادب لازم ہے اور ان میں کسی کی بھی اہانت، تحقیر اور تذلیل جائز نہیں.
خانقاہ کربوغہ شریف میں وقت لگانے میں کوئی خاص قید نہیں نہ ہی کوئی خاص وقت. جتنے دن چاہیے بندہ رہ سکتا ہے تاہم حضرت مفتی سید مختار الدین شاہ صاحب مدظلہ اپنے سالکین و مریدین کو چالیس دن کے قیام کا کہتے ہیں. اکثر سالکین چلہ لگاتے ہیں. اس چلے میں کافی حد تک ان کی روحانی ترتیب ہوجاتی ہے. تصوف کے رموز سے آگاہی حاصل کرتے ہیں . اور بہت سارے مریدین چلہ نہیں لگا سکتے، کوئی ہفتہ ٹھہرتا ہے کوئی بیس دن. بہر حال مفتی صاحب کی تحریک ایمان و تقوی کا یہ سلسلہ ملک بھر میں جاری ہے. گلگت سے لے کر کراچی تک دارالایمان کربوعہ شریف کے ذیلی مراکز قائم ہوچکے ہیں. احباب جب چاہیے خانقاہ کربوغہ کی معطر ہواؤں سے خوشبو لے سکتے ہیں. آپ آئیں گے تو آپ کا خیر مقدم کیا جائے گا. حتی الوسع آپ کی خدمت کی جائے گی. آپ سے صرف اور صرف بندہ خدا بننے، خدا کی عبادت، رسول اللہ کی محبت، انسان کی خدمت اور پورے کے پورے دین اسلام میں داخل ہونے کا تقاضہ کیا جائے گا اور بس. آپ ایک دفعہ یہاں کچھ وقت گزار کر دیکھیں. آپ کے جذبات و مشاہدات مجھ سے بھی زیادہ ہونگے. اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو.

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button