کالمز
محفوظ اور آرام دہ سڑک, چپورسن کے باسیوں کا بنیادی حق
نور پامیری
چپورسن ضلع ہنزہ کے انتہائی شمال میں افغانستان اور پاکستان کے سرحد پر واقع ایک طویل وادی ہے۔ چپورسن کے مکین سینکڑوں سالوں سے اپنی محنت اور مشقت کے ذریعے اس بے آب و گیاہ وادی کو آباد کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں کی طرح چپورسن کے مکینوں کو بھی لاتعداد مسائل کا سامنا ہے تمام تر مشکلات کے باوجود بھی ،وادی چپورسن علم اور ادب کی دولت سے مالا مال خطہ ہے۔ چپورسن کے بیٹے اور بیٹیاں دنیا بھر میں اپنی قابلیت، اہلیت اور جفاکشی کے بل بوتے پر اپنا لوہا منوا رہے ہیں ۔ انسانی معیار زندگی دیگر دور افتادہ پہاڑی اور حکومتی عدم توجہی کے شکار علاقوں کی نسبت بہت اچھی ہے۔
چپورسن کو درپیش مسائل میں سے کچھ تو وہاں کے باسی اپنی مدد آپ کے تحت حل کرتے آرہے ہیں، لیکن کچھ بنیادی مسائل ایسے ہیں کہ بھر پور حکومتی مدد کے بغیرانہیں حل کرنا ممکن نہیں ہے۔ ان مسائل میں سر فہرست وادی تک محفوظ اور آرام دہ رسائی کی سہولیات کی عدم دستیابی ہے۔ وادی میں داخل ہونے کے لئے ایک ہی سڑک ہے۔کچی سڑک سوست کے نزدیک شاہراہ قراقرم سے شروع ہوتی ہے اور پر پیچ، مگر خوبصورت، علاقوں سے گزرتی ہوئی پاک افغان سرحد پر واخان سے چند میل پیچھے واقعے بابا غندی کی زیارت تک پہنچتی ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران راقم نے متعدد بار چپورسن کا سفرکیا ہے۔اور ہر بار یہی محسوس ہوا ہے کہ اس خوبصورت اور تاریخی و مذہبی اعتبار سے انتہائی اہم وادی کی طرف جانے والی واحد کچی ، تقریباً 55 کلومیٹر طویل ، سڑک پر سفر کرنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ مجھ جیسے لوگ تو سیر و تفریح یا زیارت، یا کبھی کبھار عزیزوں کی خوشیوں اور غموں میں حصہ داری، کے لئے جاتے ہیں، مگر چپورسن کے مستقل باشندوں کو اس سڑک پر سے ہر موسم میں روز گزرنا پڑتا ہے۔اب تصور کیجئے کہ اس خطرناک سڑک پر گاڑی دوڑاتے ہوے آپ کو کسی شدید بیمار کو ہنگامی بنیادوں پر قریبی ہسپتال پہنچانا ہو!
گزشتہ چند عشروں کے دوران درجنوں افراد اس سڑک پر سفر کرتے ہوے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ سینکڑوں زخمی بھی ہوے ہیں۔
انہی وجوہات کی بنا پر چپورسن کے مکین دہائیوں سے کشادہ اور آرام دہ سڑک کی تعمیر کا مطالبہ کرتے آئے ہیں ۔ متعدد حکومتی اور انتظامی (عسکری و غیر عسکری) عہدیداروں کے سامنے اپنے مطالبے دہراتے رہے ہیں، مگر ان کی شنوائی آج تک صیح معنوں میں نہیں ہوئی ہے۔متعدد انتخابی رہنما بھی بوقتِ ضرورت گاہے گاہے اس وادی میں وارد ہونے کے بعد چپورسن روڑ کو کشادہ اور آرام دہ بنانے کے دعووے دہراتے رہے ہیں، مگر عملی اقدامات اُٹھانے کی یاتو ان میں سکت نہیں ہے، یا پھر ان کی نیت خراب ہے۔
چپورسن کے مکین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس روڑ کی کشادگی کے منصوبے کے نام پر کچھ "رہنما” انتظامیہ اور ٹھیکیداروں کی ملی بھگت سے اپنی تجوریوں کے پیٹ بھی بھرتے رہے ہیں۔ اگر اس ملک میں کوئی انصاف یا عدالتی نظام ہوتا تو ضرور ان کے گریبانوں تک قانون کے ہاتھ پہنچ جاتے۔
مگر، خیر!
گلگت بلتستان اسمبلی کے گزشتہ انتخابات کے دوران چپورسن کے نوجوانوں نے چپورسن روڑ کو مرکزی مطالبہ بنایاتھا۔ حالات کو دیکھتے ہوے موثر و غیر موثر ، تمام، انتخابی رہنماوں نے اس مطالبے کی حمایت بھی کی۔ چپورسن کی آواز بننے کا ناٹک کیا۔ مگر ان رہنماوں میں سے صرف چند ہی میدان میں موجود رہے۔ باقی انتخابات ہارنے کے بعد نعلین در بغلین چھومنتر ہوگئے۔ جیتنے والا آج کل جنرل (ر) شعیب کی گرفتاری کے غم میں مبتلا ہے، اس لئے ٹوئیٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا نظر آرہا ہے، لیکن اس علاقے کے حق میں ایک لفظ بولنے کی انہیں اب تک توفیق نصیب نہیں ہوئی ہے۔
تنگ آمد، بجنگ آمد ۔
اب وادی چپورسن کے نوجوان ایک بار پھر اس مطالبے کی حمایت میں رائے عامہ ہموار کرنے اور ریاست و حکومت کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لئے میدان میں ہیں۔ 25 مارچ کو بڑے پیمانے پر عوامی اجتماع اور دھرنا منعقد کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ خدشہ یہی ہے کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی انتظامیہ اور حکومت کو جاگنے میں دیر ہوجائے گی!
چپورسن کے مکین کسی عیاشی کا مطالبہ نہیں کر رہے ہیں۔ انہیں بس ایک کشادہ، پکی اور آرام دہ سڑک چاہیے! ایک اور بات سمجھنے کی یہ ہے کہ یہ سڑک صرف چپورسن کے باسی ہی استعمال نہیں کریں گے۔ ہزاروں افراد بغرض سیاحت و زیارت گلگت بلتستان بھر سے چپورسن کا رُخ کرتے ہیں۔ انہیں بھی یقیناً اس سے فائدہ پہنچے گا۔ علاقے کی معیشت بہتر ہوجائے گی اور لوگوں کا معیار زندگی بھی بہتر ہوگا۔
دفاعی اعتبار سے انتہائی اہم اس پر امن بین الاقوامی سرحدی علاقے تک اچھی اور معیاری سڑک پہنچانے میں دہائیوں سے غفلت کی وجوہات سمجھنے سے ہم سب قاصر ہیں۔
حکومت اور انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اس دیرینہ اور اہم بنیادی مسلے کو حل کرنے میں مزید کوتاہی نہ کی جائے اور زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھتے ہوے اقدامات اُٹھائے جائیں۔