بھوک کا احتجاج،سرکاری پابندی اور زرعی شعبے کی زوال کا ماتم
محکمہ داخلہ گلگت بلتستان کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن کے مطابق حکومت نے خطے میں تین ماہ کیلئے ہر قسم کے اجتماعات، جلسے،جلسوں اور دھرنوں پر پابندی عائد کی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان کے گندم کوٹے میں کٹوتی اور مقامی اسمبلی کی توسیع کے بعد پیدا ہونے والےسنگین بحران کے بعد عوامی احتجاج کو روکنا ہے۔
تعجب اس بات کی ہے کہ گندم کی قیمتوں میں اضافے کا مسلہ ہر سال عین اس وقت پیدا ہوتا ہے جب پاکستان سمیت دنیا بھر سےسیاح گرمیوں کی چھٹیاں گزرانے گلگت بلتستان کا رخ کر تے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے عوامی نمائندے کس قدر مسائل شناس اور ذمہ دار ہیں۔ اراکین کونسل اور اسمبلی سردیوں کے کئی ماہ اسمبلی کو تالا لگا کر اسلام آباد کے گرم موسم کو انجوائے کرکے سائبیریا کے موسی پرندوں کی طرح واپس آتے ہیں تو چونکہ اُن پاس عوام کو دینے کیلئے کوئی معاشی پالیسی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گندم سبسڈی، جسے یہاں کے عوام بدقسمتی سے موت اور زندگی کا مسلہ سمجھتے ہیں، کو چھیڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر پاکستان کے معاشی حالات کو دیکھیں تو اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی معاشی پالیسی بھی پاکستان کے ہاتھ میں نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے رحم کرم اور قرضوں پر چل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان کیلئے مختص گندم سبسڈی کا کوٹہ بھی قرضوں کی بیساکھی پر کھڑا ہے جو دیرپا نہیں چل نہیں سکتا۔
گلگت بلتستان میں اشیائے خورد نوش پر سبسڈی دراصل بھٹو کے دور میں شروع ہوئی اور اس کے پیچھے گریٹ گیم خطے کی متنازعہ حیثیت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی تھی۔ یاد رہے کہ قیام پاکستان سے قبل گلگت بلتستان کیلئے ساز و سامان اور اشیائے خوردنوش کشمیر سے زیادہ تر بارٹر سسٹم کے تحت ہوا کرتے تھے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد ریاست جموں کشمیر مسلہ کشمیر بن گیا اور تمام قدیم تجارتی راستے بند ہوگئے اور مواصلاتی سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب متبادل راولپنڈی اور پشاور سے ترسیلات شروع ہوئیں تاہم ان پر لاگت اور وقت بہت زیادہ صرف ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے گندم اور کچھ دوسری اشیائے خوردنوش پر سبسڈی دینے کا فیصلہ کیا لیکن عام تاثر یہ ہے کہ سبسڈی اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق ہے حالانکہ اقوام متحدہ قرارداد جسے یو این سی آئی پی کہتے ہیں ، میں کوئی خاص اور جامع ذکر نہیں البتہ کئی اشیاء جو جموں کشمیر میں پیدا نہیں ہوتے دیگر علاقوں سے لانے کا تذکرہ ضرور ہے۔ البتہ کہا یہ جاتا کہ سبسڈی پورے جموں کشمیر میں شملہ معاہدے کا حصہ ہے لیکن لکھا ہوا کہیں نہیں ہے۔یوں ایسا لگتا ہے کہ اُس وقت کے تناظر میں گندم سبسڈی حالات کے مطابق عوام کی ضرورت تھی لیکن عوام کو اس نشے میں مکمل طور پر مبتلا کردیا گیا جو کہ اب انسانی المیہ بن چُکی ہے۔ دنیا کا دستور ہے کہ معاشی طور کمزور قومیں سیاسی اوور فکری طور پر بھی اپاہچ ہوا کرتے ہیں اور اپاہچ فکر کی نسل جنم دیتی ہے جو آج گلگت بلتستان میں صاف نظر آریا ہے۔ اگر حکومت زرعی شعبے پر تھوڑی سی توجہ دیکرگندم کی کاشت کیلئے مواقع اور وسائل پیدا کرتے تو صورتحال مختلف ہوتے۔ خطے کی وہ تمام زمینیں جو آج نیشنل پارک اور خالصہ کے نام پر عوام سے چھینی جارہی ہے عوام کی فلاح بہبود اور زرعی شعبے کی ترقی کیلئےبروئے کار لایا جاسکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہورہا جسکی وجہ سے خطے سے ہجرت کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہورہا ہے۔ اگر ہم آرڈیننس 2009 نافذ ہونے سے آج تک تاریخ کا جائزہ لیں تو ایسا کوئی عوامی نمائندہ نہیں ملے گا جس نے اپنے حلقے میں گندم کی کاشت کیلئے خصوصی فنڈ مختص کی ہو۔یہاں تک کہ مسلم لیگ ن کے دور میں ایفاد پراجیکٹ بھی فرقہ واریت لسانیت کی بنیاد پر تقسیم ہوئے۔ اس وقت صورتحال اس قدر ابتر ہوچکی ہے سرکار محدود عوامی زرعی زمینوں پر بھی پارک بنانے اور سرکاری عمارتیں کھڑی کرنے کی دوڑ میں لگی ہے۔ ایسے میں شکوہ کس سے کریں۔کسی بھی مسلے کی حل کیلئے جڑ تلاش کرنالازمی ہے اور گلگت بلتستان کے ہر مسلے کی جڑخطےمیں قانونی حکومت کاقائم نہ ہوناہے ۔صدارتی حکم نامے پر کھڑی اس نظام میں اقتدار اعلیٰ دراصل بیوروکریسی ہے جن کے آگے عوامی نمائندوں کی کوئی حیثیت ہے اس بات کا اعلان ممبران اسمبلی کئی بار کرچُکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خطے میں ا ٓج تک کوئی سیاسی معاشی ،مالی میکنزم نہیں بن پائے، پاکستان کے تمام سرکاری مالیاتی اداروں میں متنازعہ حیثیت کی وجہ سے گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں۔ خطے کے وسائل کا حساب کتاب کرکے گلگت بلتستان کے سرکاری خزانے کو چندے سے پاک کرنے کیلئے عوامی نمائندوں کے پاس فکر اور شعورنہ ہونے کے ساتھ اختیار نہیں،ورنہ سوست ڈرائی پورٹ سے ماہانہ کروڑوں کی آمدنی ہوتی ہے جو کہ گلگت بلتستان کی خالص آمدنی ہے لیکن کیا مل رہا ہے؟ اسی طرح سیاحت، معدنیات کی کمائی پر کون ہاتھ صاف کر رہا ہے؟ گلگت بلتستان کے قومی خزانے میں معدنیات جو یہاں سے باہر جاتی ہے ماہنامہ بنیاد پر کتنے کروڑ جمع ہوتے ہیں، شائد کچھ نہیں، پانی کی رائلٹی آذاد کشمیر کو مل سکتا ہے لیکن یکساں قانونی حیثیت کے باوجود گلگت بلتستان کو نہیں مل رہا، دیامر بھاشا ڈیم کی رائلٹی ڈسٹری بیوشن کیا شائد ہی کسی عوامی نمائندے کو علم ہو، گلگت بلتستان سے اشیائے خوردنوش کی قیمتوں کے ساتھ بلاواسطہ ٹیکسز وصول کی جارہی ہے کیا وفاق نے آج تک گلگت بلتستان کو واپس کی؟ حالانکہ پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں اس حوالے سے باقاعدہ مطالبہ بھی وفاق کے سامنے رکھا تھا، اسی طرح شاہراہ قراقرم کی رائلٹی کیا ہے شائد کسی نے سوچا ہوگا۔ یہ تمام حساب کتاب ہوجائے تو گلگت بلتستان میں کوئی غریب اور گندم سبسڈی کیلئے ماتم کرنے والا نہیں ملے گا۔
پس سرکار کو چاہئے کہ گندم سبڈی کیلئے بار بار مرنے سے اچھا ہے کہ ہجرت کرکے جو عوام رہ گیا اُسے بھی دریا برد کریں کیونکہ گلگت بلتستان میں انصاف مانگنے والوں، قانون پر عمل درآمد کا مطالبہ کرنے والوں کو راء ایجنٹ جیسے القابا ت سے سے نوازتے ہیں۔ آج بھی 36 کے قریب سیاسی کارکنا ن فورتھ شیڈول میں شامل ہیں جنکا جرم یہی ہے جو پاکستان کے وزراء اعظم اقوام متحدہ فورم پر کہتا ہے۔بلاول بھٹو حال ہی میں انڈیا میں کہہ کر آیا ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے بھی سلامتی کونسل کے قراردادوں کی پاسداری کی جائے صرف ہندوستان سے مطالبہ کرنا مسلے کا حل نہیں کیونکہ مسئلہ کشمیر اور اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور ریاستی موقف آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 ، آرٹیکل 1 اور سپریم کورٹ آف پاکستان کےتین اہم فیصلے تقاضا کرتی ہے کہ اس خطے میں سیاسی استحکام لائیں کیونکہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔