کالمز

سیاست مردوں کے باپ کی جاگیر نہیں

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کی راہ میں گامزن نہیں ہوسکتا جب تک اس معاشرے کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام نہ کریں۔

کیا ہی خوبصورت بات کہی تھی بانی پاکستان نے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ یہ بات صرف بات کی حد تک ہی رہی ہے۔ اس کا عملی نمونہ معاشرے میں کوسوں دور تک نظر نہیں آتا۔

جب خواتین کے حقوق کی بات آتی ہے تو بے شک معاشرے کے اندر چند ایسی مٽالیں ضرور ملتی ہیں جن کے بل بوتے پر خواتین کو بااختیار قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر ان کی گنتی کی جاۓ تو یہ صرف آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

دور جدید میں خواتین اس وقت تک با اختیار اور آزاد نہیں جب تک ذندگی کے ہر شعبے میں وہ آگے نہ آۓ جہاں معاضی قریب میں مرد کو ذیادہ تقویت حاصل رہی ہے۔

ان شعبہ جات میں صف اول میں سیاست ہے۔

جب میں لفظ سیاست کا استعمال کرتی ہوں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ خواتین انتخابات میں حصہ لے اور اور جیت کر معاشرے کے لۓ خدمات سرانجام دیں بلکہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ خواتین اپنی سیاسی حقوق کے لے آواز اٹھایئں۔ ان کو یہ پورا حق حاصل ہو کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا لیڈر منتخب کریں۔ انہیں ووٹ دینے کے لے گھر کے کسی مرد کے دباؤ میں نہیں آنا پڑے بلکہ وہ خود ہی اپنی سیاسی شعور کو بروۓکار لاتے ہوۓ اس مرد کا انتخاب کریں ان کے مطابق علاقے بہتری کے لے کام کرنے کے اہل ہو۔

  لیکن پریشانی کا مقام یہ ہے کہ وہ خواتین جو علاقے کی آبادی میں آدھے سے ذیادہ کے حصہ دار ہیں ، ان کی اپنی کوئی سیاسی راۓ نہیں۔ علاقے کے اندا جو بھی مسائل ہیں ان کے لے ہمیشہ مرد حضرات کو ہی اواز بلند کرتے دیکھا ہے۔

میرے  کہنے کا مطلب ہرگز  ہہ نہیں  کہ خواتین سڑک پر نکل کر اجتجاج شروع کرے جس میں  کوئی قباحت نہیں ، بلکی کہنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ عورت  گھر کے اندر رہ کے بھی عمدہ کردار ادا کر سکتی ہے۔ وہ اسطرح کہ انتخابات کے دوران خواتین اپنے ووٹ کے حق کو بخوبی ادا کریں۔ اس لیڈر کا انتخاب کرے جس کے اقتدار میں  انے کے بعد علاقے میں  عوام کع کسی بھی قسم کے مسائل کا سامنا نہ ہو۔

سمجھنے کی بات اب یہ ہے کہ آخر کیوں خواتین کا رجہان سیاست کی طرف کم ہے؟ وہ کونسے عناصر ہیں جن کی سبب خواتین میں  یہ شوق سرے سے پیدا ہی نہیں  ہوتا یا نہ ہونے کے برابر ہے؟

 اس معاشرے کا، اس کے اندر رہنے والے لوگوں کا، اور مردوں کی سرپرستی میں بناۓ گے اصولوں کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جاۓ تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عورت کا سیاست سے دوری میں ان تمام عناصر کا بھرپور ہاتھ ہے۔

 سب سے اول اور سب سے بڑی رکاوٹ مراد خود ہی یے۔ وہ کچھ یوں کہ مرد چاہے گھر پہ باپ، بھائی اور شوہر کی صورت میں ہو یا شعبہ سیاست کے اندر ایک لیڈر، دوست یا کارکن کی صورت میں، انہوں نے اس شعبے کا کچھ اسطرح  خاکہ بنا کر عورت کے سامنے رکھا ہے کہ اس شعبے کو عورت نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اپنی ابرو کو غیر محفوص محصوص کرتی ہے۔ گھر کے اندر مرد حضرات عورت کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ سیاست میں شمولیت اختیار کریں۔ کیوں کہ وہ یہ بات جانتے ہیں ان کی بیٹی محفوص نہیں۔ خاص طور پر وہ خواتین جن کا سیاسی خاندان سے تعلق نہیں وہ اس بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ آخر کیوں سیاست میں انے کے لۓ کسی سیاسی خاندان سے منسلک ہونا اور بہت بڑی جائداد کا مالک ہونا لاظم ہے۔

     ان حالات میں کیا ہی امید رکھے کہ وہ قومی اسمبلی میں بیٹھ کر بحٽیت ممبر علاقے کی نمائندگی کریں۔ یہاں میں  مخاطب ہوں بلخصوص گلگت بلتستان کی خواتین سےکہ اب ضروت وقت ہے کہ صنف آہن بنے اور خود کو پہچان لے۔

     یہ ملک جتنا مردوں کا ہے اس سے بڑھ کر خواتین کا ہے۔ اس لے اب یہ لاظم ہے کہ خواتین اپنی سیاسی حقوق سے واقف ہو جاۓ ۔ یہ جان لے کہ آپ کا ایک درست نمائندے کا انتخاب ملک کو امن اور ترقی کا گہواره بنا سکتا ہے۔

     اگر اس ملک کو خوشحال نبانا ہے تو یہ کہ ضروری ہےکہ ہر عورت بھی مرد کی سیاسی اور  معاشی طور پر با اختیار ہو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button