مناور جیل میں موجود دو قیدیوں نے میٹرک کے امتحانات میں نمایاں پوزیشنز حاصل کی ہیں۔ جیل حکام شاباش کے مستحق ہیں جنہوں نے ان قیدیوں کو پڑھنے کا ماحول اور موقع فراہم کیا۔
گلگت جیل میں وقت گزارنےوالے کئی افراد تعلیم حاصل کر کے آج اہم عہدوں پر فائز ہیں جن میں بارگو سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست نعیم بھی ہیں۔ ماضی میں دورانِ اسیری پاکستان کے کئ نامور لوگوں نے اچھی کتابیں لکھیں جو آج بھی بہت مشہور ہیں۔ جیلوں میں پڑھنے لکھنے اور ہنر سیکھنے کی روایت دنیا بھر میں پائی جاتی ہے۔
دنیا بھر میں جیلوں کو ریفامرز سینٹرز میں تبدیل کیا جا چکا ہے۔ جیل کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی مجرم جب جیل میں اپنی سزا کاٹنے کے بعد واپس معاشرے میں جائے تو وہ جرم سے نفرت کرے اور ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے زندگی گزارے۔ اس لئے جدید دور میں جیلوں کو ریفام سینٹر کا درجہ گیا ہے۔ جہاں جانے والے مجرم سزا کاٹنے کے بعد ایک مہذب اور ذمہ دار شہری بن کر باہر نکلتا ہے۔
ہمارے ہاں اب بھی جیل ریفامرز کے حوالے سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں ہم نے بھی جیل ریفامز کے لئے کئ دفعہ سفارشات پیش کی ہیں۔ سوشل ویلفئر ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہمتام ایک کمیٹی بنائی گئ تھی جس نے بہت کوشش کی کہ جیلوں کے اندر قیدیوں کی تعلیم و تربیت اور ہنر سیکھانے پر کام کیا جائے۔ چند سالوں قبل اس وقت کے سکریٹری سوشل ویلفئر ظفر وقار تاج صاحب بہت مختصر عرصے میں کافی اقدمات اٹھائے تھے لیکن ان کے تبادلے کے بعد وہ کام رک گیا۔ خود جیل حکام نے ایک پروپوزل تیار کر کے سیکریٹری ہوم کو دیا تھا مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ چیف سکریٹری گلگت بلتستان جیل ریفامرز کے حوالے سے اقدامات اٹھائے۔ اس حوالے سے وہ اگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاروت کرینگے تو ان کو اچھے مشورے بھی ملیں گے۔ وہ چاہیں تو پہلے سے تیار پروپوزل پر بھی عملدرآمد کے لئے ہدایات اور وسائل فراہم کر سکتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں قیدیوں کی تعداد اتنی ذیادہ نہیں ہے اگر تھوڑی محنت کی جائے تو صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔