قراقرم انٹرنیشل یونیورسٹی میں فیسیں بڑھائے جانے کے بعد احتجاج کرنے والے طلباء و طالبات کے خلاف کارروائی کرنا غیر قانونی ہے۔ پاکستان کی مختلف جامعات سمیت دنیا بھر میں طلبہ اپنے جائز مطالبات کے حق میں پر امن احتجاجی مظاہرے کرتے ہیں۔ اگر ان طلبہ نے کوئی توڑ پھوڑ یا شرپسندی نہیں کی ہے اور اپنے مطالبات کے حق میں محض ایک پر امن احتجاج کیا ہے تو یہ ان کا آئینی و انسانی حق ہے۔ یہ حق ان کو آئین پاکستان کا آرٹیکل 16 فراہم کرتا ہے۔ احتجاج کے بعد ان کے مطالبات سننے اور ان کا مناسب حل نکالنے کی بجائے حسب روایت ان کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے یونیورسٹی انتظامیہ بھی دباو کا شکار ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ سارا بوجھ طلبہ پر ڈالا جائے اور وہ اگر اس نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائیں تو ان کی آواز کو بھی دبایا جائے۔
وی سی قراقرم یونیورسٹی نے کے آئی یو کے مالی بحران کے مسلے کو سلجھانے کے لئے وزیر اعلی گلگت بلتستان اور نگران وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات بھی کی جس کے بعد حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ یونیورسٹی کو مالی بحران سے نکالنے میں مدد فراہم کرے گی . یونیورسٹی انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ طلبہ کے خلاف کی گئی کارروائی کو فوری طور واپس لے اور ان کو تعلیم جیسے بنیادی انسانی حق سے محروم کرنے کے عمل سے اجتناب کرے۔
شنید ہے کہ زیر تعلیم طلبہ کے علاوہ یونیورسٹی سے فارغ طالب علم راہنما ، طلبہ حقوق کی توانا آواز اور سماجی ایکٹوسٹ تجمل کو بھی طلبہ کو اکسانے اور وی سی کے خلاف لکھنے کے الزام میں پابند سلسل کیا گیا ہے جو کہ سراسر نا انصافی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے تجمل کو بھی فوری طور پر رہا کیا جائے۔
ستم یہ ہے کہ پاکستان کی جامعات مِیں طلبہ کی یونین سازی پر پابندی ہے جس کی وجہ سے طلبہ آپس میں مل بیٹھ کر اپنے مسائل کے حل پر بات کرنے کی بجائے شدت پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جامعات میں طلبہ یونین سازی کی اجازت دی جائے تاکہ وہ اپنے جائز مطالبات جمہوری طریقوں سے متعلقہ فورمز میں بات چیت کے زریعہ حل کرنے کے قابل ہوسکیں۔