کالمز

ضلع دیامر کی شرح خواندگی اور مگرمچھ کے آنسو

ضلع دیامر میں خواتین کی شرح خواندگی انتہائی کم یعنی11 فیصد بتلائی جارہی ہے.
اگر سروے درست کی گئی ہے تو اس گیارہ فیصد میں 8 فیصد یقینا دینی مدارس و مکاتب کی مرہون منت ہے.
ورنا تین  لاکھ سے زائد آبادی والے ضلع میں صرف ایک گرلز ہائی سکول ہے اور ایک ہوا میں فٹ گرلز انٹر کالج ہے جس کی عمر ایک سال ہے. اور ایک مرد اس کا پرنسل ہے. ایسے میں شرح خواندگی گیارہ فیصد ہونا ناممکن ہے. کیا یہ محکمہ ایجوکیشن (سکول و کالجز) کے منہ پر طمانچہ نہیں..؟ 
اصولی بات یہ ہے کہ یہ گیارہ فیصد شرح خواندگی بھی لڑکیوں کے ان مدارس کی مرہون منت ہے جو ضلع دیامر میں واقع ہیں یا دیامر کی بچیاں گلگت، غذر اور اسلام آباد پنڈی کی دینی مدارس للبنات میں رہائشی تعلیم حاصل کررہی ہیں.
مجھے معلوم ہے کہ دیامر کو طعنے دینے والے سوشل ایکٹوسٹ، صحافی، آفیسران اور دیگر ذمہ دار لوگ دیامر میں خواتین کی ایجوکیشن کے لیے کسی طور مخلص نہیں. اگر مخلص ہوتے تو طعنے دینے کی بجائے سرکار اور دیگر اداروں کو سوشل میڈیا کی مہم کے ذریعے مجبور کرتے کہ وہ دیامر میں خواتین ایجوکیشن میں ڈھکوسلہ بازی کی بجائے حقیقی اقدامات کریں. وہ ایسا کسی صورت نہیں کریں گے. آج تک دیامر کے کسی لکھاری، صحافی یا دانشوڑ نے اس کو موضوع بحث بنایا ہی نہیں.کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ دیامر کی ماں بیٹی پڑھی لکھی ہوئی تو دیامر کے نام نہاد دینداروں اور جی بی کے جعلی تعلیم یافتوں کی خیر نہیں.
لہذا سرکار سمیت دیگر تمام رفاہی و تعلیمی این جی اوز اور دیامر کے زبردستی دیندار،اور مفادات سے بھرے ممبران اسمبلی، دیامر میں خواتین ایجوکیشن پر کچھ بھی نہیں کریں گے. سوائے دینی مدارس کے. وہ جیسے تیسے لڑکیوں کو تعلیم دے رہے ہیں مگر کوئی ان کا ذکر تک نہیں کرتا. بلکہ ان کو ہی لٹریسی ریٹ کی کمی کا الزام دیا جارہا ہے.
راقم نے اپنے پیارے دوست مولانا امتیاز داریلی کے ذریعے اس پر ایک پورا تھیسز لکھوایا ہے اور انہوں نے شاندار ریکمنڈیشنز بھی دی ہیں. یہ کام بھی داریل کا مولوی کرگیا مگر کالج یونیورسٹی کا پینٹ بردار طعنے دے گا کام نہیں کرے گا. 

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button