آپ کی تحریریںبلاگز

وادی نلتر کا ایک روزہ مطالعاتی دورہ

خاطرات :امیرجان حقانی
یکم مئی کا دن تھا. یہ مزدوروں کا عالمی دن ہے. گلگت بلتستان کے موسم میں بڑی خنکی تھی. وقفے وقفے سے بارشوں نے پورے جی بی کو گھیر رکھا تھا. ایسے میں پوسٹ گریجویٹ کالج گلگت کے پروفیسروں نے وادی نلتر کا ایک روزہ مطالعتی دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ صبح کے ابتدائی اوقات تھے، اور گلگت کے پہاڑوں کے اوپر ہلکی سی برف باری کی روشنی ابھی بھی موجود تھی۔ ہوا میں ہلکی سی خنکی اور کچھ نئی شروعات کا احساس تھا۔
گھر میں شام کو یہی بتا رکھا تھا کہ مجھے صبح احباب کیساتھ نلتر جانا تھا. گھر کے اندر زندگی کی خوبصورتی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب آپ کے پاس دو محبت کرنے والی بیویاں ہوں جو آپ کے دل کو خوشی سے بھر دیتی ہیں اور آپ کے سفر و حضر میں محبتیں بانٹتی ہیں۔ جب آپ اپنی صبح کا آغاز کرتے ہیں، تو ایک بیوی آپ کے لیے چائے کا پیالہ لے کر آتی ہے، اس کی مسکراہٹ سورج کی پہلی کرن جیسی ہوتی ہے۔ دوسری بیوی ناشتہ تیار کرتی ہے، اور اس کے ہاتھوں کی خوشبو آپ کے دل کو گرمائش دیتی ہے۔ ان دونوں کے ساتھ وقت گزارنا گویا دنیا کے سب سے خوبصورت گلابوں کے بیچ بیٹھنے جیسا ہے۔ یہ آپ کو تب محسوس ہوگا جب آپ اس کیفیت سے گزریں گے. 
آپ اپنے دن کی شروعات کرتے ہیں، اور وہ دونوں آپ کے ساتھ گفتگو کرتی ہیں، ہنستی ہیں، اور آپ کے ساتھ اپنے خواب بانٹتی ہیں۔ راز و نیاز کی باتیں شئیر کرتی ہیں. ان کے ساتھ ہر لمحہ خاص ہوتا ہے، اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے پاس دنیا کی سب سے قیمتی چیز ہے۔ جب آپ  نلتر جیسی خوبصورت وادی کی سیر کے لیے جانے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں، تو ایک بیوی آپ کا سامان پیک کرنے میں مدد دیتی ہے، گرم سویٹر پہناتی ہے، جبکہ دوسری آپ کو الوداع کہنے کے لیے محبت بھرا بوسہ دیتی ہے۔ یہ سب کچھ آپ کو یہ احساس دلاتا ہے کہ محبت اور خوشی کی کوئی حد نہیں ہے، اور آپ محبت اور خوشی کو ہر طرح انجوائے کرسکتے ہیں. اور آپ اپنے دل میں یہ دعا کرتے ہیں کہ یہ لمحے ہمیشہ یونہی چلتے رہیں۔ جب کیفیات یہی ہوں تو پورا دن شاندار گزرتا ہے. 
میں پڑی بنگلہ سے یہی خوبصورت، کیفیات، لمحات اور محسوسات لیے کالج پہنچا. بھائی افضل نے کالج کی منی بس اسٹارٹ کی اور ہم نو بجے چل دیے. میں قافلے کا سائق تھا. ہر کوئی مجھ سے رابطہ کیا جارہا تھا. باب گلگت، پبلک چوک، یادگار چوک، مین بازار اور گھڑی باغ سے احباب کو پک کرتے ہوئے یونیورسٹی روڈ یعنی شاہراہ نلتر پر سفر شروع کیا. اس شاہراہ کو گلگت نلتر ایکسپریس بھی کہا جاتا ہے. 
پروفیسروں کی ٹیم نے گلگت سے نلتر کی طرف روانہ ہوتے ہوئے، ایک دوسرے سے گفتگو کرتے اور قدرت کے حسن کو سراہتے ہوئے سفر کا آغاز کیا. آغاز بہت دلچسپ تھا۔ منی بس قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کو چھوتے ہوئے نومل کی طرف فراٹے بھرنے لگی. جیسے جیسے وہ پہاڑی راستوں پر آگے بڑھتے گئے، قدرت کے نادر نظارے سامنے آتے گئے۔ بلندی پر پہنچتے ہی سبزہ اور رنگ برنگے جنگلی پھولوں نے ان کا استقبال کیا۔ یہاں کی خوبصورتی کا کوئی جواب نہیں تھا. 
نلتر کی وادی اپنی خوبصورتی اور قدرتی حسن کے لئے مشہور ہے۔ یہاں پر اونچے اونچے درخت اور بہتی ہوئی ندیاں ہر سمت دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ وادی ہر موسم میں ایک نئے روپ میں ظاہر ہوتی ہے، گرمیوں میں یہ سبزے سے بھرپور اور رنگین پھولوں سے سجی ہوتی ہے جبکہ سردیوں میں برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ یہاں درختوں اور چوٹیوں پر برف کی چادر بچھی ہوتی ہے. 
نلتر  گلگت بلتستان کے کیپٹل ایریا گلگت کی ایک خوبصورت وادی ہے۔ یہ اپنا قدرتی حسن، برف باری، اور سیاحتی مقامات کے لئے مشہور ہے۔ یہاں نلتر کے بارے میں کچھ اہم معلومات اور چیزیں ہیں، جو آپ کے لئے دلچسپی کا باعث ہو سکتی ہیں.
نلتر گلگت شہر سے تقریباً 34 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہ وادی بلند پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے اور اس میں چند خوبصورت جھیلیں بھی موجود ہیں۔ نلتر وادی کی بلندی مختلف مقامات پر تقریباً 2800 سے 3500 میٹر کے درمیان ہے۔نلتر بالا میں پہنچ کر ایک راستہ جھیل کی طرف جاتا ہے اور ایک زیرو پوائنٹ کی طرف، جہاں سکینگ پوائنٹ ہے. نلتر بالا کے زیرو پوائنٹ سے ست رنگی جھیل، پری جھیل اور بلیو لیک تک جیپوں کے بغیر نہیں جایا جا سکے گا۔ ست رنگی جھیل تک 12 کلومیٹر کا سفر ہے.
نلتر وادی میں ہر موسم کی اپنی خاصیت ہے۔ گرمیوں میں یہاں سبزہ اور پھولوں کی بھرمار ہوتی ہے، جبکہ سردیوں میں یہ وادی برف سے ڈھک جاتی ہے۔ یہ مقام برف باری کے لئے بھی مشہور ہے. نلتر کے موسم کا کوئی اعتبار نہیں. کسی بھی وقت بارش یا برف باری ہوسکتی ہے. اس لیے مناسب لباس یعنی سویٹر اور اورکوٹ ضرور ساتھ لیتے جائیں. ایک چھتری بھی ہو تو بہتر ہے. 
گلگت بلتستان کا سیاحتی مقام وادی نلتر میں، موسم سرما میں سکینگ کے عالمی مقابلے بھی ہوتے ہیں۔ 2019 انٹرنیشنل قراقرم الپائن سکی کپ کا میلہ ممنعقد ہوا.  جس میں پاکستان سمیت پندرہ ممالک کے 35 سکیئرز نے حصہ لیا. 
سطح سمندر سے 8960 فٹ کی بلندی پر واقع نلتر سکی سلوپ میں جاری انٹرنیشنل قراقرم الپائن سکی کپ  کے مقابلے میں ترکی نے پہلی، پاکستان نے دوسری اور یوکرائن نے تیسری پوزیشن حاصل کی. ایونٹ کی سلالم کیٹیگری میں اپنے فن کا بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے ان کھلاڑیوں نے بالترتیب گولڈ،سلور اور براونز میڈل جیتے۔
انٹرنیشنل قراقرم الپائن سکی کپ میں پاکستان کے علاوہ ترکی، یونان، افغانستان، مراکش، آزربائیجان، ہانگ کانگ،برطانیہ، بوسنیا ہردگوزینیا، تاجکستان بیلجیئم سمیت دیگر ممالک کے سکی پلیئرز نے حصہ لیا اور خوب سراہا۔
نلتر کا سکی چیئرلفٹ، جو بلند اور خطرناک سمجھی جاتی ہے، نے کئی نوجوانوں کو سکینگ کی مشق کرنے کا موقع دیا ہے۔ اسی چیئرلفٹ پر پریکٹس کرتے ہوئے، نلتر ہی کے چند مقامی نوجوانوں نے عالمی سطح پر منعقد ہونے والی سکی چمپئن شپس میں اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان اور گلگت بلتستان کا نام فخر سے بلند کیا ہے۔
گلگت بلتستان کے نوجوان سکیئرز میں ضلع غذر سے تعلق رکھنے والی دو بہنیں، آمنہ ولی اور عارفہ ولی، نمایاں ہیں۔ یہ دونوں بہنیں نہ صرف اپنی مقامی برادری میں مقبول ہیں بلکہ انہوں نے بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ انہوں نے اپنے کھیل میں کمال مہارت دکھا کر یہ ثابت کیا ہے کہ گلگت بلتستان میں بھی بین الاقوامی معیار کے خواتین کھلاڑی موجود ہیں۔
ان کی یہ کامیابیاں نلتر کی سکینگ کمیونٹی کے لئے ایک بڑی خوشخبری ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر مواقع فراہم کیے جائیں اور محنت کی جائے، تو دنیا کے کسی بھی کونے سے قابل کھلاڑی سامنے آ سکتے ہیں۔ نلتر کے ان نوجوانوں نے یہ ثابت کر دیا کہ سکینگ کے لئے درکار ہمت اور جرأت، قدرتی خوبصورتی کے درمیان پروان چڑھ سکتی ہے۔ ویسے پہاڑوں کی اولاد کے لیے یہ معمول کی باتیں ہیں.
نلتر میں کئی خوبصورت جھیلیں ہیں، جن میں ست رنگی جھیل  سب سے مشہور ہے۔ اس جھیل کا پانی نیلا اور شفاف ہوتا ہے، جو اسے ایک خاص دلکشی عطا کرتا ہے۔ اسی جھیل  کو ست رنگی جھیل (Seven Color Lake) کہا جاتا ہے. یہ خوبصورت جھیل ہے جو اپنی منفرد رنگوں کی بدولت مشہور ہے۔ سنا ہے کہ روشنی پڑنے پر جھیل کے پانیوں کا رنگ مختلف سات رنگوں میں نظر آنے لگتا ہے. یہ جھیل نلتر ویلی کا ایک دلکش مقام ہے اور سیاحوں کے درمیان بہت مقبول ہے۔ یہاں اس جھیل کے بارے میں کچھ اہم معلومات فراہم کی جا رہی ہیں. 
یہ جھیل نلتر ویلی کی تین بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے۔
جھیل کا نام "ست رنگی” اس کے پانی کے رنگوں کی بدولت رکھا گیا ہے۔ پانی میں مختلف معدنیات اور روشنی کے انعکاس کے باعث یہ جھیل مختلف رنگوں میں نظر آتی ہے، جیسے کہ سبز، نیلا، فیروزی، اور دیگر رنگ۔جھیل کے ارد گرد کے مناظر انتہائی خوبصورت اور دلکش ہیں، جس میں بلند پہاڑ، سرسبز جنگلات، اور گلیشیئرز شامل ہیں۔
سیاح اس جھیل کے کنارے وقت گزارنے، تصاویر لینے، اور قدرتی خوبصورتی کا لطف اٹھانے کے لیے آتے ہیں۔ست رنگی جھیل کے پاس ہائیکنگ اور کیمپنگ کی بھی سہولتیں موجود ہیں، جو ایڈونچر پسند لوگوں کو پسند آتی ہیں۔موسم گرما میں یہ جھیل خاص طور پر خوبصورت ہوتی ہے، جب درجہ حرارت معتدل ہوتا ہے اور سبزہ چاروں طرف پھیلا ہوتا ہے۔موسم سرما میں برف باری کے باعث جھیل جم کر منجمد ہو جاتی ہے اور  نلتر کے جملہ مناظر برفیلی چادر میں ڈھک جاتے ہیں۔
جھیل تک پہنچنے کے لیے جیپ یا 4×4 گاڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں کا راستہ پہاڑی اور دشوار گزار ہوتا ہے۔ ابھی تک نلتر ایکسپریس وہاں تک نہیں پہنچا. جھیل کے قریب رہائش کے محدود انتظامات ہیں، لیکن سیاح گلگت میں رہائش اختیار کر کے دن بھر کا دورہ کر سکتے ہیں۔
ست رنگی جھیل کی خوبصورتی، مختلف رنگوں کا منظر، اور اس کے ارد گرد کے قدرتی مناظر اسے گلگت بلتستان کے اہم سیاحتی مقامات میں شامل کرتے ہیں۔ یہ جھیل قدرتی خوبصورتی کا ایک شاہکار ہے اور یہاں کا دورہ سیاحوں کے لیے ایک یادگار تجربہ ہوتا ہے۔
وادی نلتر میں سیاحوں اور سیاحتی سرگرمیوں کے لئے بہت کچھ موجود ہے۔ یہاں آپ ہائیکنگ، کیمپنگ، اور فوٹوگرافی کر سکتے ہیں۔ سردیوں میں سکینگ کے شوقین حضرات کے لئے یہاں بہترین مواقع ہیں۔ پاکستان آرمی ہر سال یہاں نیشنل سکینگ چیمپیئن شپ کا انعقاد کرتی ہے، جس میں ملک بھر سے کھلاڑی شرکت کرتے ہیں۔
نلتر وادی کے مقامی لوگ سادہ اور دوستانہ ہوتے ہیں۔ ان کی ثقافت میں موسیقی، رقص، اور روایتی لباس کا اہم کردار ہے۔ مقامی لوگ عموماً کھیتی باڑی اور مویشی پالنے میں مشغول رہتے ہیں۔ نلتر کا آلو بہت مشہور اور لذیذ ہے. غذائیت سے بھرپور ہے. آج کل نلتر میں بڑے بڑے ہوٹل تعمیر ہورہے ہیں. گلگت بلتستان کے درجنوں امیر لوگوں نے یہاں زمینیں خریدی ہیں اور ہوٹل اور موٹل بنا لیے ہیں. پاکستان آرمی بھی بھرپور موجود ہے. کئی مرکزی مقامات ان کے پاس ہیں. 
ہم سے کئی احباب نے پوچھا کہ نلتر تک کیسے پہنچا جائے. اگر آپ کو اسلام آباد سے گلگت تک ہوائی جہاز کا ٹکٹ ملتا ہے تو یہ ایک گھنٹہ کا سفر ہے. آپ ناننگا پربت کا ہوائی وزٹ کرتے ہوئے گلگت پہنچ سکتے ہیں. اور اگر آپ جون جولائی میں آنا چاہتے ہیں تو اسلام آباد سے براستہ ناران کاغان اور بابوسر ٹاپ کے گلگت تشریف لائیں اور اگر سردیوں میں آنا ہے تو براستہ بشام قراقرم ہائے وے گلگت تشریف لائیں.
نلتر وادی تک پہنچنے کے لئے گلگت شہر سے جیپ یا دیگر گاڑیوں کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پہلے نلتر تک جیپ میں سفر ممکن تھا. اب روڈ بہترین ہے کوئی بھی چھوٹی گاڑی جاسکتی ہے تاہم واپسی پر انتہائی احتیاط سے ڈرائیونگ کرنی ہوگی. کئی حادثات رونما ہوئے ہیں.
پوسٹ گریجویٹ کالج مناور گلگت کےپروفیسروں  کی یہ ٹیم نلتر زیرو پوائنٹ پہنچ گئی. ہم جھیل تک جانا چاہتے تھے مگر قلت وقت اور کچی روڈ کی وجہ سے وہاں جانے سے رہ گئے. ہماری ایونٹ منیجمنٹ کمیٹی کی ٹیم پروفیسر فرید اللہ کی سربراہی میں سویرے ہی وہاں پہنچ کر نگرہ میں ڈھیرے ڈال چکی تھی. ہم بھی زیرو پوائنٹ سے نگرہ تک پیدل گئے. راقم، رحمت اور انتخاب صاحب پہلی فرصت میں نلتر کا سب سے بلند ویوو پوائنٹ نگرہ میں پہنچے اور دیر تک وہی نظارے کرتے رہے.جھیلوں کے دائیں بائیں کے حسین مناظر کو بھی یہاں سے دیکھ کر دل کوبہلایا مگر یہ کمبخت کب بہل جاتا ہے. نگرہ وویو پوائنٹ میں سنگاپور کی دو سیاح خواتین بھی ایک مقامی گائیڈ کی معیت میں پہنچی ہوئی تھیں. خوب انجوائے کررہی تھی. یہ لوگ بھی فطرت کے بڑے نشئی ہیں. 
نگرہ سے ہر طرف کا نظارہ کمال کا ہورہا ہے. نلتر پائین اور بالا کا ہر مقام واضح نظر نواز ہوتا ہے. یہاں 2022 میں  بھی آنے کا موقع ملا تھا. برادرم مولانا عمر خٹک اور ترکی کے کچھ طلبہ کیساتھ اسی ویوو پوائنٹ میں دیر تک ٹھہرے رہے تھے. نلتر بھی بار بار جانا ہے. میرے کئی اسٹوڈنٹنس ہیں جو مدعو کرتے ہیں. شاید ایک بار اپنے کلاس فیلوز کی ٹیم کیساتھ بھی جانا پڑے جلد.
نگرہ اور اس کے اطراف میں موجود برفیلی پہاڑیوں، وسیع و عریض سبزہ زاروں اور فطری مقامات نے ہمیں مبہوت کر دیا. یہ جگہ واقعی جنت کا ایک ٹکڑا معلوم ہو رہی تھی۔ پروفیسرز نے نگرہ کے چبہ چبہ چھان مارا. وہاں بیٹھ کر سکون محسوس کیا، اور بعض نے تو برف کے ساتھ خوب اٹھکھیلیاں کی. برف سے سب سے زیاد لطف  غلام عباس، عبداللہ اور رزاق نے اٹھایا۔ میں اور ضیاء ان کی ویڈیو بناتے رہے. ارشاد شاہ، رحمت اور انتخاب ہماری اٹھکھیلیوں کو انجوائے کرتے رہے. اشتیاق یاد نے سچ کہا کہ بڑھاپے کی دھلیز میں بھی غلام عباس صاحب میں ایک شرارتی نوجوان زندہ ہے.
فطرت اور قدرت ہمارے وجود کا مرکز ہیں، جو ہمیں خوبصورتی، سکون اور حیرت کا احساس عطا کرتے ہیں۔ گھنےجنگلات کی سبزیاں، دریاؤں کا روانی، پہاڑوں کی اونچائیاں، اور سمندروں کی گہرائیاں، یہ سب فطرت کے حیران کن عناصر ہیں جو ہماری دنیا کو ایک جادوئی جگہ بناتے ہیں۔ نلتر میں یہ سب کچھ موجود ہے. قدرت کے یہ مناظر نہ صرف آنکھوں کو خوش کرتے ہیں بلکہ ہماری روح کو بھی سکون دیتے ہیں۔ ہم ان سے سیکھتے ہیں کہ زندگی کتنی پیچیدہ اور خوبصورت ہوسکتی ہے۔ فطرت کی یہ شان و شوکت ہمیں اس بات کی یاد دلاتی ہے کہ ہمیں اپنی دنیا کا خیال رکھنا چاہیے تاکہ یہ خوبصورتی آنے والی نسلوں کے لئے بھی برقرار رہ سکے۔
فطرت کے بارے میں اللہ کا پیغام واضح اور جامع ہے۔ قرآن مجید میں، اللہ نے فطرت کو ایک نشانی کے طور پر پیش کیا ہے، جس کے ذریعے انسان اس کی عظمت، حکمت، اور تخلیقی قوت کو سمجھ سکتا ہے۔ قرآن میں بار بار فطرت کے عناصر جیسے کہ آسمان، زمین، پہاڑ، دریا، درخت، اور جانوروں کی تخلیق کا ذکر آتا ہے تاکہ انسان غور و فکر کرے اور اللہ کی قدرت کو پہچانے۔
فطرت کا مشاہدہ اور اس پر غور کرنا، ایمان کو مضبوط کرتا ہے اور اللہ کی وحدانیت اور اس کی عظمت کا ادراک عطا کرتا ہے۔ ہمیں فطرت کی قدر کرنی چاہیے اور اسے نقصان سے بچانے کے لیے کوشش کرنی چاہیے، تاکہ ہم اللہ کے پیغام کا احترام کر سکیں اور اس کے تخلیقی کاموں کی حفاظت کر سکیں۔
ہمارے احباب  دن بھر نلتر میں فطرت کو قریب سے دیکھتے رہے. خوب مشاہدہ کیا. اپنے اپنے افکار و علوم سے دیگر کو مستفید کیا. اسلام اور سائنس کے آفاقی اصول بھی زیر بحث آئے. مختلف مضامین کے اساتذہ تھے جو اپنا اپنا علم شئیر کررہے تھے . بہر حال بہت کچھ سیکھنے کو ملا.
دوپہر کے وقت، سب نے ساتھ میں مل کر، کھیتوں کے درمیان زمین پر بیٹھ کرکھانا کھایا. میں نے نگرہ کے کھیتوں کے ٹاپ سے واپسی پر بہتی ندی کے پانی میں وضو کرکے نماز ظہر ادا کی اور ذرا دیر سے آیا. کھانا ختم ہوچکا تھا. کچھ ساتھی دو دو بار پلیٹوں میں گوشت بھر بھر کر کھاچکے تھے. ہم نے بھی بچا کچھا زہرمار کر دیا اور قہوہ خوب انجوائے کیا. کھانے پینے کے بعد جو کچرا جمع ہوا تھا، ہمارے احباب نے چن چن کر اس کو اٹھا لیا. بچی روٹی اور فروٹ کے چھلکے بیچ کھیت جانوروں کو کھلایا. ہڈیاں کتوں نے چانٹ لیں. یوں جہاں احباب نے فرشی نشست لگائی تھی صاف ستھری کرکے رکھ دیا. یہی اس خوبصورت مقام کا تقاضا بھی ہے کہ گندگی نہ پھیلائی جائے، تھوڑا بہت کچرا جمع بھی ہوجائے تو سنبھال کر لے جائیں اور دور کہیں پھینک دیں. 
 ہمارے پروفیسر احباب نے کھلے میدان میں ایک محفل سجھا رکھی تھی. ایک دوسرے کے ساتھ کہانیاں شیئر کیے جارہے تھے. ماضی کی حسین یادیں دہرائی جا رہی تھیں. لطائف کا زوروں تھا. اچانک غلام عباس صاحب نے ناچنا شروع کیا. پھر کیا تھا کہ سب باری باری ناچنے لگے. پرنسپل اسلم ندیم صاحب کی گاڑی میں بڑی سی سونڈ ڈیگ لگی ہوئی تھی اور مختلف مقامی گانے چل رہے تھے. ان پر پروفیسر احباب تھرک رہے تھے. ہم بھی دور بیٹھیں ان کی پرفارمنس کو دیکھ رہے تھے. کبھی قریب ہوکر کسی کے "ناچ شریف” پر تبصرہ مار دیتے . واقعی "علمائے ناچو” لگ رہے تھے.
یہ وہ لمحات تھے جب قدرت کی خوبصورتی نے سب کے دلوں کو چھو لیا تھا۔ قدرت کے حسن میں ہزار رعنائیاں پنہاں ہیں. ہم پر یہ رعنائیاں منکشف ہورہی تھیں. 
میں نے ادھر ادھر مقامی لوگوں سے نلتر کے بارے میں مختلف دلچسپ معلومات بھی جمع کیں، جیسے کہ یہاں کے موسمی حالات، مقامی ثقافت، سیاحت، ہوٹل انڈسٹری اور لوگوں کی روزمرہ زندگی، بہت سی دلچسپ باتیں معلوم ہوئی جن کا کچھ تذکرہ ماقبل کے سطور میں ہوگیا ہے. 
وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا، اور شام کا وقت قریب آ گیا۔ پروفیسروں نے واپس گلگت جانے کے لئے تیاریاں شروع کیں، لیکن نلتر کی وادی کی خوبصورتی ان کے دلوں میں ایک انمٹ نقش چھوڑ چکی تھی۔ گروپ فوٹو بنایا جاچکا تھا. احباب نے انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی خوب فوٹو گرافی کر لی تھی. سلیمی صاحب کی تجویز تھی کہ راستے میں کہیں چائے پی لی جائے. اشتیاق یاد اس کی تائید کررہے تھے. ہم بھی یہی چاہتے تھے تاہم واپسی پر نومل میں جس ہوٹل میں چائے پی وہ جگہ تو اچھی تھی مگر چائے بہت بے کار. وہاں کافی دیر ٹھہرے رہے. احباب کے استفسار پر دوسری شادی کے متعلق  اپنی تجاویز اور تجربات شئیر کیے. 
پروفیسر احباب گلگت کی طرف واپسی میں جاتے ہوئے خوب خوش گپیاں کررہے تھے ، انہوں نے آپس میں وعدہ کیا کہ وہ پھر سے نلتر کی وادی کا دورہ کریں گے، تاکہ قدرت کی اس خوبصورت تخلیق کا مزید لطف اٹھا سکیں۔
یہ ایک ایسا سفر تھا جو ہمیشہ کے لئے ان کے دلوں میں محفوظ رہے گا، اور نلتر کی خوبصورتی نے ان کے دلوں کو محبت اور سکون سے بھر دیا تھا۔ یہ یادیں مرتی نہیں، مرنے کے بعد بھی احباب کو زندہ رکھتی ہیں. رفیع صاحب جاتے ہوئے بھی اور واپسی پر بھی سب کو چھیڑ رہے تھے. سجی محفل میں بھی کوئی نہ کوئی مزاحیہ جملہ کَس دیتے تھے. ویسے وہ سفر میں تنگ نہ کرے اور جگت بازی کا مظاہرہ نہ کرے تو سفر پھیکا سا پڑ جاتا ہے.ہمارے ایسے اسفار میں، احباب کی بے تکلفیاں بھی عروج پر ہوتیں ہیں. غیر پارلیمانی الفاظ کا آزادانہ استعمال ہوتا ہے جن پر قدغن نہیں ہوتی. 
وادی نلتر میں سیاحت کو بڑھوا دینے کے لیے چند تجاویز دل میں آرہی ہیں، جو عرض کیے دیتا ہوں. 
انفراسٹرکچر کی بہتری بڑے پیمانے پر ہونی چاہیے. سڑکوں اور ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ سیاحوں کو آسانی سے نلتر پہنچنے کا موقع مل سکے۔نلتر کے اندر پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ نیٹکو کے ذمہ داروں کو اس حوالے سے کچھ اچھا کر دکھانا چاہیے.
نلتر میں ہوٹل انڈسٹری نے قدم جمانا شروع کیا ہے. کئی محکموں کے ریسٹ ہاوس بھی ہیں. تاہم قیامطو طعام کے مزید آپشنز فراہم کیے سکتے ہیں ، جیسے کہ ہوٹلز، ریزورٹس، اور کیمپنگ سائٹس۔موجودہ گیسٹ ہاؤسز اور کیمپنگ سائٹس کے معیار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے. سستی اور مہنگی دونوں سہولیات موجود ہونی چاہیے تاکہ ہر کوئی نلتر سے لطف اٹھا سکے.
نلتر کی سیاحت کی ترقی کے لیے بھرپور مارکیٹنگ کی ضرورت ہے. نلتر کی خوبصورتی کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے اشتہاری مہم چلائی جائے۔  اور ابلاغ و اشتہار کے جملہ ذرائع استعمال کیے جائیں.
 سیاحتی معلومات کے مراکز بنائے جائیں جہاں سیاحوں کو مقامی معلومات اور رہنمائی فراہم کی جا سکے۔
سیاحوں کو ماحول دوست سیاحت کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور ان سے توقع کی جائے کہ وہ اپنے کچرے کو صحیح طریقے سے ٹھکانے لگائیں۔ اور گندگی پھیلانے کا سبب نہ بنیں. اپنی گند کے ذریعے فطرت کو نقصان پہنچانا کسی صورت جائز نہیں. 
 نلتر کی قدرتی خوبصورتی اور جنگلی حیات کی حفاظت کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں۔ یہ مقامی لوگوں سمیت سیاحوں پر بھی لاگو ہوں. 
سیاحتی سرگرمیوں کی متنوعیت شروع کی جائے. سیاحتی سرگرمیوں کی مختلف اقسام متعارف کی جائیں، جیسے کہ ہائیکنگ، راک کلائمبنگ وغیرہ.
مقامی لوگوں کے ساتھ ثقافتی تجربات کی فراہمی، جیسے کہ مقامی موسیقی، دستکاری، اور کھانوں کا تعارف۔ وغیرہ.
مقامی آبادی کو سیاحت کے شعبے میں روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ بھی سیاحت سے فائدہ اٹھا سکیں اور اپنی معیشت بہتر بنا سکیں۔
 مقامی افراد کو سیاحوں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے اور سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کا سلیقہ سکھانے کے لئے ترتیب دی جائے۔
نلتر میں طبی سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ ہنگامی صورت حال میں سیاحوں کو فوری مدد مل سکے۔ اور ہمہ وقت کچھ ایمبولینس یہاں موجود ہونے چاہیے.
سیاحوں کی حفاظت کے لیے پولیس اور سیکیورٹی کے انتظامات کو مضبوط بنایا جائے۔ مقامی لوگوں کی سیکورٹی بھی بہت اہم ہے.
ان چند تجاویز پر محکمہ سیاحت گلگت بلتستان و پاکستان غور کرسکتی ہیں. اگر ان پر عمل پیرا ہونا شروع کیا گیا تو یہ تجاویز نلتر میں سیاحت کو فروغ دینے اور سیاحوں کے تجربے کو بہتر بنانے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر سکتی ہیں۔ ان پر عمل کرنے سے نہ صرف سیاحوں کو ایک خوشگوار ماحول حاصل ہوگا، بلکہ نلتر  اور گلگت بلتستان و پاکستان کی معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button