حکومتی شاہ خرچیاں
آج سوشل میڈیا پر گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ، مشیران، وزراء اور بیوروکریٹس کی ایک میٹنگ کے بعد کھانے کی تصویریں وائرل ہوئیں، جس پر عوام، سوشل میڈیا صارفین، صحافی اور سماجی و سیوسی کارکنان نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور خوب بھتیاں کسیں اور بہت سارے سوشل ایکٹیوسٹ نے سوالات اٹھائے۔ عوام کی اس برہمی کا مرکز یہ ہے کہ سرکاری وسائل کو بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے، جب کہ علاقے کے عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ لیکن یہ صرف ایک معمولی واقعہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملک بھر بالخصوص گلگت بلتستان میں ایسی لاتعداد شاہ خرچیاں اور کرپشن کے بیسیوں طریقے ہیں جن کے ذریعے قومی خزانے کو مسلسل نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ آج کی محفل میں ان ہی غیر ضروری اخراجات اور بدعنوانیوں کے مختلف طریقوں پر مختصر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
گلگت بلتستان سمیت ملک بھر میں حکومتی وزراء اور مشیران مختلف موضوعات پر غیر ضروری میٹنگز کا انعقاد کرتے ہیں۔ یہ میٹنگز اکثر ایسی ہوتی ہیں جن کا کوئی عملی فائدہ نہیں ہوتا۔ ان میٹنگز کا مقصد محض ایک دوسرے کی تعریف و توصیف کرنا یا ذاتی مفادات کا حصول ہوتا ہے۔ ان میٹنگز کے لیے بڑے ہوٹلوں اور پرتعیش مقامات کا انتخاب کیا جاتا ہے، جہاں لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ سرکاری خزانے سے ان فضول خرچیوں کا بوجھ اٹھانا عوامی وسائل کے ضیاع کا کھلا ثبوت ہے۔
حکومتی اہلکار اور بیوروکریٹس کے سرکاری دورے اور میٹنگز کے بعد ٹی اے/ڈی اے (Travel Allowance/Daily Allowance) کی مد میں بھاری رقم وصول کی جاتی ہے۔ ان دوروں اور میٹنگز کا اکثر کوئی حقیقی مقصد نہیں ہوتا، مگر پھر بھی ان پر غیر ضروری اخراجات کیے جاتے ہیں۔ بعض اوقات تو دورے یا میٹنگز میں شرکت کیے بغیر ہی ٹی اے/ڈی اے کلیم کر لیا جاتا ہے، جو کہ سراسر دھوکہ دہی اور عوام کے پیسوں کا ناجائز استعمال ہے۔ سرکاری افسران جعلی بلز بنا کر اضافی رقم وصول کرتے ہیں اور یہ پیسہ ذاتی استعمال میں لاتے ہیں۔
وفاقی اور صوبائی حکومتیں اکثر جعلی یا غیر ضروری منصوبے شروع کرتی ہیں، جن کے لیے بڑی بڑی رقوم مختص کی جاتی ہیں۔ یہ منصوبے زیادہ تر کاغذی کارروائی تک محدود رہتے ہیں اور عملی شکل اختیار نہیں کرتے۔ ان منصوبوں کے ذریعے سرکاری خزانے سے بھاری رقوم نکالی جاتی ہیں، جو کہ بعد میں بیوروکریٹس اور حکومتی اہلکاروں کے ذاتی اکاؤنٹس میں منتقل ہو جاتی ہیں اور ہر فرد کو وعدہ کے مطابق اس کا حصہ مل جاتا ہے۔
وزیراعظم، وزیر اعلیٰ، صدر، گورنر، بڑے بیوکریٹس اور دیگر اعلیٰ عہدے دار اکثر مہنگے اور غیر ضروری دورے کرتے ہیں۔ یہ دورے عموماً عیش و عشرت کے لیے ہوتے ہیں اور ان پر سرکاری خزانے سے بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ ان دوروں کے اخراجات کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے قومی خزانے پر بوجھ پڑتا ہے اور عوام کے وسائل ضائع ہوتے ہیں۔
حکومتی منصوبوں کے ٹھیکے اکثر غیر قانونی طریقے سے دیے جاتے ہیں۔ ان ٹھیکوں میں بھاری کمیشن اور رشوت وصول کی جاتی ہے، جو کہ، وزراء، بیوروکریٹس اور حکومتی اہلکاروں کے قریبی دوستوں یا رشتہ داروں کو دی جاتی ہے۔ اس طرح قومی خزانے سے بھاری رقوم نکال کر ذاتی مفادات کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
حکومت اپنے حامیوں اور دوستوں کو مختلف عہدوں پر غیر ضروری طور پر تعینات کرتی ہے۔ ان تقرریوں کے لیے بھاری تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں، جو کہ عوامی وسائل کے ضیاع کا باعث بنتی ہیں۔ یہ تقرریاں اکثر کسی حقیقی ضرورت کے بغیر کی جاتی ہیں اور ان کا مقصد صرف اپنے سیاسی یا ذاتی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت تو اس حوالے سے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ چکی ہے۔
یہ شاہ خرچیاں، غیر ضروری میٹنگز، جعلی پروجیکٹس، ٹھیکوں کی بندربانٹ، ٹی اے/ڈی اے کی لوٹ مار، اور کرپشن کے دیگر طریقے نہ صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ہیں، بلکہ عوام کی مشکلات میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔ حکومت اور بیوروکریسی کی ان کرپشن اور شاہ خرچیوں پر نظر رکھنے کے لیے عوام کو فعال ہونا ہوگا، تاکہ سرکاری خزانہ عوامی مفادات کے لیے استعمال ہو سکے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔
سرکاری وسائل کا یہ بے دریغ استعمال ہماری قوم کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ عوام کو چاہیے کہ وہ غیر جانبدار ہوکر اس قسم کی بدعنوانیوں کے خلاف آواز اٹھائیں اور حکومت سے جوابدہی کا مطالبہ کریں، تاکہ ملک کا سرمایہ صحیح مقاصد کے لیے استعمال ہو اور عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جا سکے۔