کالمز

گلگت بلتستان لینڈ ریفارمز اور لینڈ مافیاز – دوسری قسط

میں نے اس سے پہلے والے آرٹیکل میں جموں وکشمیر میں لینڈ ریفارمز کی مختصر تاریخ کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تھی اعادہ کیلئے اتنا بتاتا چلوں کہ جموں و کشمیر کے مہاراجہ گلاب سنگھ کا استدلال یہ تھا کہ جموں و کشمیر کے بیشتر علاقے میرے خریدے ہوئے ہیں جبکہ لداخ، بلتستان، استور اور گلگت کے علاقے بزورِ طاقت بزریعہ جنگ و جدل حاصل کئے ہیں اسی لئے میں ان علاقوں کا مالک بلا شرکت غیر ہوں۔ اسی جواز کے بنیاد پر وہ یہاں کے مکینوں کو انکی اپنی اراضیات میں کاشتکار یا کرایہ دار بناکے خود مالک بن بیٹھا تھا، اور اپنی غنان حکومت چلانے کیلئے مالیہ، لگان، کرایہ و اجارہ جیسے جابرانہ محصولیاتی ٹکس سے انکم حاصل کرتا رہا اگر کوئی غریب آدمی مالیہ لگان وغیرہ نہیں دے سکتا تو مہاراجہ یہی اراضیات اس غریب کسان سے اٹھا کر کسی اور بندے کو دے دیتا، یوں ظلم و جبر کا یہ نظام 1846 سے تقریباً 1947 تک چلتا رہا، بھیج میں کچھ عوامی شور شرابے اور مسلمانوں کی چند ایک تحریکوں کی وجہ سے کچھ اصلاحات بھی ہوتی رہی ہیں، اور 10 جنوری 1936 کو اعلان نمبر 1936/21 کے تحت مہاراجہ ہری سنگھ نے گلگت بلتستان کے زمیندران کو پہلی بار حق ملکیت دیتا ہے۔ اس مخصوص پیرے کو یہاں درج کرنا مقصود ہے ملاحظہ ہو۔
*( The Zamindarans of Frontier Districts of Gilgit and Laddakh have with in the period of local disturbance in the province of Jummu and Kashmir shown exemplary loyalty and devotion to the state and proprietary rights are conferred on the ‘Assamis’ of both the Districts without recovery of any Nazara)*
اس اعلان کے تحت گلگت بلتستان کے لوگوں کو حق ملکیت ملی مگر یہاں بھی کچھ اپنے ہی موقع پرست عناصر نے اس اعلان کے فواعد بھی عام عوام تک پہنچانے میں رکاوٹ بنتے رہے۔ ازاں بعد گلگت سب ڈیوژن نوتوڑ رولز 1942 بنائے گئے اور آزادی کے بعد 1965 میں بلتستان نوتوڑ رولز بنے جن کو بعد میں ملا کر 12 جون 1978 کو ناردرن ایریاز نوتوڑ رولز 1978 بنائے گئے جو آج تک جاری و ساری ہیں۔
میں موضوع کو آگے بڑھانے سے پہلے یہاں یہ وضاحت کرنا چاہونگا کہ جس طرح بزریعہ جنگ گلگت بلتستان کو حاصل کرنے کے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ یہاں کی اراضیات کا مالک بن بیٹھا تھا بلکل اسی طرح یہاں کی عوام نے بھی 1947/48 میں مہاراجہ کے خلاف اعلان جہاد کرکے بزریعہ جنگ ان علاقوں کو واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جس عمل سے مہاراجہ گلاب سنگھ 1846 میں یہاں کے مکینوں کی صدیوں پرانی ملکیتی آباد و قبضہ کاشت اراضیات کا مالک بن بیٹھا تھا بلکہ اسی طرح 1947/48 میں گلگت بلتستان کے مکین بھی اپنی صدیوں پرانی ملکیتی و قبضہ کاشت اراضیات کے واپس مالک بن گئے ہیں۔ مگر چونکہ گلگت بلتستان میں اس حوالے سے کبھی کوئی سنجیدہ عوامی جدوجہد رہی ہی نہیں اس لئے مہاراجوں کے خالصہ سرکار والے قوانین نادرن ایریاز نوتوڑ رولز کسی نہ کسی شکل سے ژندہ رہے ہیں۔
اب یہ لفظ خالصہ سرکار کہاں سے آیا اس پر میں مختصراً روشنی ڈالوں گا اور اس لفظ کے زریعے یہاں کی عوام کا کیسا استحصال ہوتا رہا ہے اس پر بھی روشنی ڈالنے کی کوشش کرونگا۔
درحقیقت خالصہ *سکھ مت* کے پیروکاروں کا ایک اجتماعی وجود ہے۔ سکھ مت کے دسویں گرو *گوبند سنگھ* نے 30 مارچ 1699ء کو آنند پور صاحب میں *خالصہ پنتھ* کی بنیاد رکھی۔ یہ تاریخ کا ایک الگ باب ہے کہ اس کی بنیاد رکھنے کی وجہ کیا تھی طوالت سے بچنے کیلئے لفظ خالصہ سرکار پر ہی توجہ رکھیں گے ۔ یہ لفظ گلگت بلتستان میں سِکھوں کی حکومت کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے جو 1799 سے لے کر 1849 تک قائم رہی۔ گلگت کے اندر اور باہر سِکھ سلطنت کی قبضہ کی گئی زمینوں کو ’خالصہ سرکار زمین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خالصہ سرکار کے قانون کے تحت گنجان آباد (یا خالی) زمین پر سرکار کا قبضہ تھا جبکہ برصغیر کی تقسیم کے بعد سے گلگت بلتستان میں یہ قانون آج بھی نوتوڑ رولز کے شکل میں کسی نہ کسی طرح رائج ہے۔ اب کوئی بھی باشعور آدمی یہ کیسے مانے کہ مہاراجہ گلاب سنگھ گلگت بلتستان کے ہزاروں صدیوں پرانے علاقے بزور جنگ ناجائز طریقے سے ہتھیا لے وہ تو ان علاقوں کا بلا شرکت غیرے جائز مالک بن جائے اور گلگت بلتستان والے وہی علاقے تقریبا کوئی سو سال بعد بزریعہ جنگ واپس لیں تو وہ مالک نہیں بن سکتے ہیں اس قوم کے ساتھ بڑا گھناؤنا ظالمانہ مزاق ہوتا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ایسا قانون آزادی کے بعد بھی تقریباً آٹھ دھائیوں تک رائج کیوں رہا تو سادہ سا جواب ہے کہ ایسا قانون ایسا نظام مافیاز اور کچھ قبضہ گروپوں کیلئے انتہائی مناسب، موافق و موزوں ہے۔ اسی لئے آج تک اس قوم کو کبھی سنجیدگی سے اس معاملے پر بیٹھ کر سوچنے تک کا موقع بھی فراہم نہیں کیا گیا۔ اب بھلا ہو سوشل میڈیا کا جہاں ہمارے جیسے ایک ادنیٰ قانون و تاریخ کے طالب علم کو اپنی بات عوام تک پہنچانے کا موقع ملا، یوں پورے گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز کی ضرورت پر زور دیا گیا اور بالآخر مقتدر حلقے مجبور ہوئے کہ واقع کوئی منظم مربوط لینڈ ریفارمز کے بغیر مزید آگے چلنا ممکن نہیں ۔ مگر بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے بہت سارے اضلاع خاص کر بندوبستی اضلاع کی بڑی تعداد میں اراضیات خالصہ سرکار گردان کر انکی انتقالات کو منسوخ کیا گیا ہے۔ حال ہی میں بلتستان ریجن میں کوئی 35 ہزار کنال اراضیات کی 1300 جعلی انتقالات منسوخ کی گئی ہیں۔ اب لینڈ مافیاز جن کو ریونیو اتھارٹیز کی آشیرباد بھی حاصل ہے نے ایک بار پھر اپنے جعلی انتقالات، جعلی رجسٹریاں، جعلی ہبہ نامے و جعلی خرید و فرخت کے ساتھ ساتھ جعلی درخواستیں لوگوں کے جعلی دستخط کر کے جمع کرا رہے ہیں کہ صدیوں پرانے قبضہ کاشت کو بھی اجکل کے جعلی انتقالات و قبضہ جات کے ساتھ ملا کر کینسل کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لینڈ مافیاز و اتھارٹیز یہ چاہتی ہیں کہ جعلی انتقالات و غیر قانونی خرید و فروخت کے معاملے کو اتنا پیچیدہ بنایا جائے کہ جو انکوائری کمیشن استور ایا ہے وہ اتنا کنفیوز ہو کر اس پر کوئی حتمی فیصلہ تک نہ دے سکے۔ مطلب یہ کہ حق و باطل کو اتنا مکس کیا جائے کہ لوگ حق اور باطل کے درمیان فرق ہی نہ کر سکیں۔
یہاں میں خالصہ سرکار کی اراضیات بشکل قبضہ کو سمجھنے کیلئے مختصراً وضاحت کروں۔ خالصہ سرکار قبضے کی صورت میں دو شکلیں ہو سکتی ہیں۔ ایک خالصہ سرکار قبضہ کاشت قدیم۔ اور دوسری خالصہ سرکار بنجر قدیم ۔ پہلی قسم قبضہ کاشت گلگت بلتستان میں لوگوں کے پاس صدیوں سے آباد و قبضہ چلی آرہی ہے۔ صدیوں سے ان اراضیات سے لوگ منفعت بشکل کاشت، بشکل گھاس، بشکل پتھر، ریت بجری، لکڑی و بشکل تعمیرات لیتے رہے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم وہ ہے جو اجکل جعلی الاٹمنٹ انتقال پرانی تاریخ پر درج کر کے ایک آدھا سال قبل قبضہ کیا یا ابھی تک عوام نے قبضہ کرنے نہیں دیا۔ اب کوئی معقول عقل و دانش رکھنے والا ان دونوں خالصہ اراضیات کو ایک ہی پلڑے میں ماپے گا۔ بدقسمتی سے لینڈ مافیاز اپنے گھناونے جرائم کو چھپانے کیلئے ان دونوں اقسام کو مکس آپ کرنا چاہتے ہیں۔ اور محکمہ مال کے کارندے جو ان گھناونے عمل سے کروڑ پتی بنے ہیں ان کی حمایت کرتے ہیں۔ بدقسمتی کا دوسرا بڑا پہلو یہ ہے کہ ساری عوام ستو پی کے سوئی ہوئی ہے چند ایک باشعور اور قومی سوچ رکھنے والے نوجوانوں کے علاؤہ کسی کو اس سارے عمل سے کوئی سروکار نہیں، جبکہ مافیاز پورے گلگت بلتستان میں اکھٹے ہو کر تدابیر بنا رہے ہیں ایک منظم طاقت بن کر محکمہ مال کے کرپٹ عناصر کی حمایت سے جعلی انتقالات کر رہے ہیں، جعلی رجسٹریوں کے زریعے قیمتی عوامی اراضیات کا غیر قانونی خرید و فروخت کر رہے ہیں۔ دیدہ دلیری سے مجسٹریٹ اور رجسٹرار کی جعلی مہریں استعمال کی گئی ہیں اور آج تو کمال یہ کیا کہ محکمہ مال کے سب سے بڑے دفتر جا کر اپنے آپ کو کوئی اور آدمی بنا کر جعلی درخواستیں بھی جمع کی حیرت کی بات یہ ہے ان درخواستوں کو مزید کاروائی کیلئے انکوائری کمیشن کو بھیجوا بھی دی گئی ہیں۔ روئیں تو کس کس چیز پر روئیں گلگت بلتستان میں ہر محکمے کا آوے کا آوا بھگڑا ہوا یے۔
ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا۔
(تحریر بہت طویل ہوئی بقیہ کیلئے اگلے آرٹیکل تک انتظار کیجئے گا)

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button