کتاب ”صبح آزادی بلتستان“ پر تبصرہ
عبد الخالق تاج
تاریخ کتاب صبح آزادی بلتستان کی اس سچی کاوش پر میں جناب حشمت اللہ خان اور اس کے تمام خاندان والوں کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
یوں تو اس علاقے کا ہر معاشرتی پہلو متنازعہ چلا آرہا ہے مذہب، متنازعہ، ذات پات کا سسٹم متنازعہ،تاریخ قدیم متنازعہ، غرضیکہ تاریخ جدید بھی متنازعہ چلی آرہی ہے۔ تاریخ قدیم تو متنازعہ ہونے کا جملہ حقوق محفوظ رکھتی ہے کیونکہ اس خطہ کہسار میں علم کی روشنی نہایت تاخیر سے وارد ہوئی ہے، کیونکہ پہاڑوں کی چار دیواری میں یہ علاقے علمی اور میدانی علاقوں سے کہیں چھ مہینے اور کہیں آٹھ نو مہینوں کے لئے مکمل طور پر کٹے رہتے تھے۔ کشمیر کی طرف تمام دروں کے علاوہ درہ بابو سر اور شمال مغرب کی طرف درہ شندور بھی صرف گرمیوں میں تین چار مہینوں کے لئے وا گزار ہو جاتے ہیں۔ ایسے دشوار گزار جغرافیائی حالات میں یہاں کوئی عالم وفاضل اور مورخ کیسے پیدا ہو سکتا تھا۔
کہتے ہیں چین، کشمیر اور افغانستان سے چند سیاح یہاں سے ہو گزرے ہیں، مگر ان سیاحوں کے صحیح روٹ کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چلا سکا ہے۔ اس بارے میں مختلف رائیں پائی جاتی ہیں اور پھر ان سیاحوں کے سفر ناموں سے اس علاقے کے تاریخی اور جغرافیائی طور پر کوئی حتمی نتیجہ برآمد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ وہ بھی کوئی مستند تاریخی اور جغرافیائی تصویر پیش نہیں کر سکے ہیں۔
ازمنۂ قدیم سے مقامی طور پر کوئی ایک مرکزی حکومت اس قدر وسیع و عریض علاقے پر محیط نہ تھی،گلگت اور بلتستان 28000مربع میں یہ علاقہ کبھی بھی لمبے عرصے تک ایک ہی حکمران کے زیر اقتدار نہیں رہا، بلکہ گلگت اور بلتستان اپنے اندر چھوٹی چھوٹی مطلق العنان راجگیوں میں بٹا ہوا تھا اور یہ چھوٹے چھوٹے راجے ہر وقت آپس میں دست و گریباں رہا کرتے تھے۔اس لئے ان کی سرحدیں کبھی پھیلتی اور کبھی سکڑتی رہتی تھیں اور تقریباً سب کے سب یہ چھوٹے موٹے حکمران بذات خود ان پڑھ اور اندھوں میں کانے راجے تھے۔ اس لئے کسی منظم مرکزی حکومت کے تحت کوئی منظم تاریخ نہیں لکھوائی گئی۔اور عوام میں ان حکمرانوں نے اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں دیو مالائی کہانیاں مشہور کرائی اور گھن گواتے رہے،جو آج تک مشہور ہیں اور ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان دیومالائی کہانیوں اور گیتوں سے آج بھی ان حکمرانوں کی اولاد شجرے اخذ کرکے اپنے آپ کو دیووں اور پریوں کی اولاد قرار دیتی ہے۔ حالانکہ زمانہ جانتا ہے کہ وہ دیوؤں اور پریوں کی اولاد نہیں بلکہ انسانوں کی اولاد ہے۔ جہاں قدیم حکمرانوں کی کوئی مستند تاریخ نہیں ملتی ہے اور حکمرانوں کو اپنے شجروں کے بارے میں درست معلومات حاصل نہ ہوں، وہاں کسی مستند تاریخ کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے؟
یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ شمالی علاقہ جات کی آبادی مختلف قبائل پر مشتمل ہے اور ہر قبیلہ دوسرے کو حقارت اور نفرت کی نظر سے دیکھتا ہے۔اسلئے ابھی تک یہاں کے لوگ ایک قوم کا روپ نہیں دھار سکے۔بہت بعد میں جب انگریز لوگ یا برصغیر کے چند لوگ اس طرف بطور یا سیلانی یا حکمران آئے تو انہوں نے مختلف اور ایک دوسرے سے نفرت کرنے والے قبائل میں گھوم پھر کر تاریخی آرا ء دریافت کر لی ہیں اور پھر ان پڑھ لوگ پڑھے لکھوں کی نسبت زیادہ متعصب ہوتے ہیں۔ انہوں نے تعصب میں آکر منہ سے جو کچھ اگل دیا وہ چھاپ دیا گیا۔ حالانکہ وہ سب کچھ درست نہیں اس لئے ہماری قدیم تاریخ کے متنازعہ ہونے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ مگر پاکستان بنے ہوئے تاریخی لحاظ سے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں۔ ہماری جدید تاریخ بری طرح تضادات کا شکار چلی آرہی ہے۔
جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں اور آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے والوں نے ہر معاملے کو مختلف اور متضاد طریقے سے پیش کیا ہے۔ مثلاً حسن خان اپنی کتاب شمشیر سے زنجیر تک میں لکھتے ہیں کہ انقلاب گلگت اسی کی سرکردگی میں برپا ہوا ہے۔31اکتوبر اور یکم نومبر کی درمیانی رات کا انقلاب اسی کے حکم پر عمل میں لایا گیا۔اسی ضمن میں حسن خان ملٹری کراس مزید لکھتے ہیں کہ وہ یکم نومبر کو بھاگم گلگت پہنچے تو بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے تھے، الٹا بابر خان وغیرہ سپاہی امیر حیات کو شہید کرا بیٹھے تھے۔بقول حسن خان ملٹری کراس اس نے ایک چٹ دیکر گورنر کو جان کی ضمانت دیدی تو وہ ہتھیار پھینک کر باہر آیا، اور گرفتاری پیش کی۔
اس بارے میں کتاب گلگت سکاؤٹس کے مصنف میر زادہ محمد شاہ خان کا کہنا ہے کہ دارالخلافہ گلگت میں 31اکتوبر اور یکم نومبر کی درمیانی رات گلگت سکاؤٹس نے بنگلے کا محاصرہ کیا۔ صبح چار بجے تک فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا اور صبح چار بجے کے بعد گورنر نے ہتھیار پھینک کر گرفتاری پیش کی حسن خان کا اس میں سرے سے کوئی کردار رہا ہی نہیں ہے۔اس بارے میں ریٹائرڈ ڈی ایف او رسول صاحب پروفیسر عثمان کی تالیف گلگت آزادی اور نظریہ کے صفحہ نمبر 69پر صبح آزادی کے عنوان سے رقمطراز ہیں۔”صبح آزادی ہے اور سورج اپنی آب و تاب سے چمک رہا ہے، لیکن مورچہ ابھی تک فتح نہیں ہوا، اب بابر خان کی تجویز پر وہاں موجود آفیسران کی میٹنگ بلائی جاتی ہے۔ میٹنگ میں طے ہوا کہ شہر سے سرکردہ ہندو افراد کو بلایا جائے گورنر کے پاس بھجوائے جائیں تاکہ گورنر کو ہتھیار ڈالنے پر قائل کر سکیں اور اس کو یقین دلایا جائے کہ تمام حساس مقامات پر ہمارا قبضہ ہے اسلئے ہتھیار ڈالنے میں اس کی بھلائی ہے۔ گورنر کو چار آدمیوں نے بنگلے سے باہر نکالا ان میں صوبیدار میجر بابر خان، صوبیدار شاہ سلطان، راجہ سلطان عبد الحمید، انسپکٹر آف پولیس اور دیگر سرداران گلگت سکاؤٹس شامل تھے“
غلام رسول صاحب مزید لکھتے ہیں ”گورنر کو پر امن طریقے سے گلگت سکاؤٹس کی چھاؤنی پہنچایا گیا، اسی خوشی میں ڈڈنگ ہریپ پر لوگ ناچ رہے تھے اتنے میں سکاؤٹس گراؤنڈ کے مشرقی گیٹ سے ایک گھڑ سوار داخل ہوا، اس وقت صبح کے کوئی ساڑھے نو بجے کا عمل ہوگا قریب آنے پر پتہ چلا کہ یہ کرنل حسن خان ہے“
اس بارے میں بریگیڈیئر گھنسارا سنگھ کا اپنا کہنا ہے کہ اس نے میجر براؤن، لفٹنٹ حیدر خان اور دوسرے سرداران کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔پاکستان کا جھنڈا لہرانے کے بارے میں مختلف بیانات ہیں۔ غلام رسول صاحب کے مطابق جھنڈے کی برجی یکم نومبر تا دو نومبر بالکل خالی رہی،کوئی جھنڈا نہ تھا۔ صبح آزادی بلتستان کے خالق جناب حشمت اللہ خان پروفیسر عثمان کی تالیف آزادی اور نظریہ کے صفحہ نمبر 75پر لکھتے ہیں کہ ”دو نومبر 1947کو میجر براؤن نے پاکستان کا جھنڈا لہرا یا“ اس ضمن میں میرزادہ محمد شاہ خان کتاب گلگت سکاؤٹس میں رقمطراز ہیں کہ”یکم نومبر 1947کی صبح پاکستان کا جھنڈا لہرانے کا سہرا ہمارا لیڈر صوبیدار میجر بابر خان کے سر بندھتا ہے“
آپ نے اس مختصر بیان میں دیکھا کہ گورنر کی گرفتاری سے جھنڈا لہرانے تک کے تمام بیانات میں کس قدر تضاد ہے۔ آج تک جتنی بھی کتابیں جنگ آزادی گلگت بلتستان کے بارے میں ہماری نظروں سے گزری ہیں ان میں اکثر غازیوں، مجاہدوں اور شہیدوں کو نظر انداز کیا گیا ہے، خاص طور پر بلتستان، کشمیر اور چترال کے مجاہدین، غازیان اور شہداء کے بارے میں بہت کم لکھا گیا ہے،مگر یہ تمام کمی جناب حشمت اللہ خان صاحب نے صبح آزادی بلتستان میں پوری کر دی ہے۔کتاب صبح آزادی بلتستان صاحبِ تصنیف کی 36سالوں کی محنت شاقہ اور عمیق مطالعہ کا نتیجہ ہے اس جنگ آزادی میں حصہ لینے والے کردار صاحب موصوف کے گھر میں اب بھی زندہ موجود ہیں۔
کتاب زیر بحث کے بارے میں جناب عبد الہادی مدیر جہاد کشمیرپیش لفظ کے عنوان سے رقمطرز ہیں کہ”اس میں تاریخ آزادی کشمیر خصوصاً شمالی علاقہ جات کی آزاد ی کے اَن دیکھے گوشے بے نقاب کرنے کی بھر پور سعی کی گئی ہے“
یہ کتاب اس لحاظ سے بھی قابل تحسین ہے کہ اس میں کسی قسم کے ذاتی نظریات یا پسند و ناپسند کو غالب آنے نہیں دیا گیا ہے، بلکہ مکمل ذمہ داری اور غیر جانبداری سے واقعات کی تلاش و جستجو کیا جا کر غیر متعصبانہ انداز میں جانچ پرکھ کے بعد انہیں الفاظ کا زیور پہنایا گیا ہے۔ تاریخ آزادی میں بڑے بڑے نام اکثر گھسے پٹے انداز میں تو سامنے آتے رہے ہیں لیکن بہت سے عظیم مگر گمنام ہیرو نا سپاسی کی گرد میں چھپے رہے، اور جن زعماء اور اکابرین کا ذکر آیا وہ بھی محض چند محاسین تک محدود اورا صل کارناموں کے تذکرے سے محروم رہا۔ بعض لکھنے والوں نے روزنامچوں کو تاریخ اور بعض نے تاریخ کو روزنامچہ بنا دیا ہے۔ ذاتی پسند اور نا پسند نے تاریخ کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ جناب حشمت اللہ خان نے اپنے ٹیپ ریکارڈر اور قلم کی مدد سے سینوں میں چھپے ہوئے رازوں کو کھوجنے اور کھودنے کی کوشش کی ہے اور گم گشتہ داستان کو ریکارڈ پر لانے میں کامیاب ہوئے ہیں وہ ان ہی کا حصہ ہے وہ مزید لکھتے ہیں کہ حشمت اللہ خان کی یہ کتاب ہمیں کہانی کے انجام تک پہنچا دیتی ہے جس کا آغاز نہ ہونے دیا گیا، حرف سپاس کے عنوان سے جناب شیر باز علی خان برچہ رقمطراز ہیں کہ ”ورق ورق میں مسودہ پڑھتا رہا، بخدا مجھے بڑا لطف آیا“
ایک ہی واقعہ کے بارے میں کئی چشم دید اور شامل معرکہ مجاہدین اور نمازیوں کے بیانات نے اس کتاب کی صحت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رکھی ہے۔ ایک اور بات جس سے اس کتاب کی قدرو قیمت بڑھتی ہے، بلتستان کے بارے میں غیر متعصبانہ رویہ اور فراخ دلانہ کوریج ہے۔ آج تک بیشتر مورخین نے بلتستان کے حصہ جہاد کو زیادہ پذیرائی نہیں بخشی ہے۔
تعارف کے عنوان سے ماہر تعلیم جناب مظفر علی ظفر لکھتے ہیں کہ ”جنگ آزادی کی اس روداد کو بہت سے ادیبوں نے اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے جن کے بیانات میں اختلاف رائے پائی جاتی ہے مگر حشمت اللہ خان صاحب کی زیر نظر کتاب سے اختلاف کرنا بہت مشکل ہے“
اب آپ خود بتائیں کہ ایسے مایہ ناز مورخوں کی کتاب زیر نظر کے بارے میں متفقہ رائے سے میرے جیسے کم علم لوگ کیسے اختلاف کر سکتے ہیں۔ اب صاحب تصنیف کے قلم سے آزادی گلگت کے بارے میں کتاب کے ہم لوگ منتظر ہیں اصل اختلافات کا گڑھ گلگت ہے۔ مجھے امید ہے صاحب موصوف اس بارے میں بھی غیر متعصبانہ تحقیق کے بعد کتاب پیش کریں گے۔ ”خدا کرے زور قلم اور زیادہ“