جنگ آزادی گلگت بلتستان کے متعلق اہم دستاویزات اور ان کے مولفین
1947ء کی جنگ آزادی گلگت، جسے انقلاب گلگت بھی کہا جاتا ہے، کے متعلق معدودے چند دساویزات منظر عام پر آگئی ہیں۔ ان میں سے ایک کرنل مرزا حسن خان کی کتاب’شمشیر سے زنجیر تک’ ہے جو اس سلسلہ کتب میں سب سے پہلے شائع ہوئی۔ اس کے بعدانگریز آفیسر میجر الیگزینڈر براؤن کی کتابGilgit Rebellion منظر عام پر آئی جس کا ترجمہ ‘انقلاب گلگت ‘ کے نام سے اشاعت پذیر ہوا۔ اس سلسلے کی تیسری کتاب کیپٹن شاہ خان کی لکھی ہوئی ‘ گلگت اسکاوٹس’ اور چوتھی کتاب ڈی ایف او غلام رسول کی ‘آزادی گلگت بلتستان’ ہے۔ ان مذکورہ دستاویزات کے مصنفین میں اول الذکر تین جنگ آزادی کے ہیروز ہیں جن کی کاوشوں سے گلگت بلتستان ڈوگروں کی غلامی سے آزاد ہوا۔ جبکہ موخر الذکر لکھاری غلام رسول جنگ ازادی کے دوران حکومتی اہلکار تھے اور اس دور کے واقعات کے چشم دید گواہ تھے۔
کرنل مرزا حسن خان مرحوم، جو جنگ آزادی کے اہم ہیروز میں سے ایک تھے، نے اپنی یادداشتوں کو کتابی صورت میں مرتب و مدون کیا جسے ‘شمشیر سے زنجیر تک’ کے نام سے شائع کیا گیا۔ اگرچہ اس کتاب میں تاریخی حقائق بھی بیان ہوئے ہیں جن کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ہے۔ کیونکہ مصنف کتاب خود اس انقلاب کے اہم ترین قائدین میں سے ایک تھے اور سب کچھ ان کے سامنے وقوع پذیر ہو چکا تھا۔ تاہم، مصنف مذکور نے واقعات کو ادبی پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ نیز یہ کہ کتاب میں واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے جس سے اس دستاویز کی تاریخی حیثیت متاثر ہوئی ہے۔ اس لئے مورخین و محققین کو یہ تعین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ‘شمشیر سے زنجیر تک’ ایک تاریخی دستاویز ہے یا ایک ایسا سفر نامہ یا ادب پارہ جسے دلچسپ بنانے کے لئے واقعات کو افسانوی رنگ میں ادبی پیرائے میں پیش کیا گیا ہے۔ نیز مصنف کتاب نے بار بار واحد متلکلم کا صیغہ استعمال کیا ہے جس سے مصنف کی خود نمائی اور دوسروں کو نظر انداز کرنے کا تاثر ملتا ہے۔ اس سے بالواسطہ مصنف کی جانب داری کا اظہار بھی ہوتا ہےہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بعض اہل علم اور بہت سے سنجیدہ اشخاص نے اس کے مندرجات سے کھل کر اختلاف کیا۔ بہر حال، دیگر دستاویزات کی عدم دستیابی کے سبب، اس کتاب کے رد میں کوئی قابل ذکر علمی تحریر منظر عام پر نہ آسکی اور کرنل موصوف کی اس کتاب نے وقت سے فائدہ اٹھا کر خوب نام کمایا اور نتیجتاً اس کے مندرجات کو ایک وقت تک تاریخ کے منبع و مصدر کے طور پر تسلیم بھی کیا گیا۔ لیکن میجر براون کی مذکورہ کتاب کی اشاعت کے بعد کرنل حسن کی کتاب کی بہت سے مندرجات سوالیہ نشان بن گئے۔ تب کرنل موصوف کے موضوعہ نظریات و آراء کے مدافعین کی چیخیں نکل گئیں۔
در اصل، میجر براون نے کتاب ‘انقلاب گلگت ‘ (Gilgit Rebellion) لکھ کر اور اس کی بیوی نے اس کتاب کو شائع کر کے گلگت – بلتستان کی تاریخ نویسی کے حوالے سے اہم خدمت انجام دی ہے جس کے صلے میں حکومت پاکستان نےمیجر براؤن کو ستارہ پاکستان کے ایوارڈ سےبھی نوازا ہے۔میجر براون نے 1947ء کی جنگ ازادی گلگت کے اہم حقائق کو منظر عام پر لایا ہے اور ہماری تاریخ کے اہم ترین مرحلے کے متعلق درست تاریخ لکھنے کا راستہ ہموار کیا ہے۔ میجر موصوف کی اس کتاب کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ اول تو اس کے مصنف 1947ء میں گلگت اسکاوٹس کے کمانڈنٹ تھے اور ان کی سرکردگی میں ہونے والے کاموں اور ان کے سامنے وقوع پذیر ہونے والے واقعات سے بخوبی آگاہ تھے جنہیں من عن ضبط تحریر میں لایاہے۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے برطانوی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی تھی اس لئے انہوں نے حالات و واقعات کو تصنیف و تالیف کے جدید علمی تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر منظم طریقے سے کتابی صورت میں مرتب کیا ہے جس سے کتاب کو معیار عطا ہوا ہے۔ اور تیسرا یہ کہ میجر موصوف غیر ملکی ہونے کی وجہ سے غیر جانب دار بھی تھے اور اس وقت کی تاریخ کو غیر جانب داری سے پیش کیا ہے۔ یہی وہ خصوصیات ہیں جو میجر براؤن کی کتاب کو مستند اور معتبر بناتے ہیں۔
تیسری کتاب کیپٹن شاہ خان مرحوم کی ‘ گلگت اسکاوٹس’ ہے۔ کیپٹن شاہ خان، جو جنگ آزادی کے اہم ہیروز میں سے ایک تھے، بعد میں پاکستان ائیرفورس میں گروپ کیپٹن بھی بنے اور خاندانی لحاظ سے میر آف ہنزہ سر میر محمد نظیم خان کے بیٹے تھے ، نے اپنی یادداشتوں کو کتابی صورت میں مرتب کیا جو’ گلگت اسکاوٹس’ کے نام سے شائع ہوئی۔ اس دستاویز نے بھی تاریخ کے بعض چھپے ہوئے رازوں اور گم نام گوشوں کو منصہ شہود پہ لایا جس نے تاریخ نویسی کے فن کو مزید مالامال کردیا۔ اس کتاب نے بھی کرنل حسن کی کتاب کے بعض مندرجات کی نفی کی ہے۔ ان کے بیانات کو جھٹلانا آسان نہیں ہے کیونکہ شاہ خان بھی اس انقلاب کے بانیوں میں سے ایک تھے اور وہ 31 اکتوبر اور یکم نومبر کے اہم ترین لمحات میں گلگت ہی میں موجود تھے اور گلگت شہر ان کے کنٹرول میں تھا اور خاص طور پر گلگت میں موجود غیر مسلم اقلیت یعنی سکھ اور ہندو آبادی کی حفاظت کر رہے تھے۔ جبکہ کرنل حسن اس وقت بونجی میں عسکری خدمت انجام دے رہے تھے اور بعد میں اکر شامل ہوئے۔
اس سلسلہ کتب کی چوتھی کتاب غلام رسول مرحوم کی ‘آزادی گلگت بلتستان’ ہے۔ غلام رسول مرحوم، جو محکمہ جنگلات کے ایک اعلٰی آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ جنگ آزادی کے چشم دید گواہ بھی تھے، نے بھی اپنے مشاہدات و مطالعات کو کتاب کی صورت میں مدون کیا جو ‘آزادی گلگت بلتستان’ سے شائع ہوئی۔ اس تالیف نے بھی گلگت کے اس اہم دور کے متعلق تاریخی معلومات کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا اور بجا طور پر اس کتاب نے جنگ آزادی گلگت کی سچی کہانی لکھنے کی طرح ڈالی ہے۔ مرحوم نے واقعات کو جرات و بے باکی اور غیر جانب داری سے قلمبند کیا ہے۔
الغرض، کرنل مرزا حسن خان، میجر الیگزینڈر براون، میرزادہ کیپٹن شاہ خان اور ڈی۔ ایف۔ او غلام رسول کی کتب منظر عام پر آنے کے بعد جنگ آزادی کی کسی حد تک درست تفہیم ممکن ہوسکی ہے۔ یقیناً، مذکورہ مصنفین کی کتب، جو جنگ آزادی اور 1947ء کے انقلابی سال اور اس کے پس منظر کے متعلق بنیادی مآخذ کی حیثیت رکھتی ہیں، نے تاریخ کی تہی دامنی کو ختم کر کے اس کی جیب و دامن کو بھرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
بعد میں بھی اس موضوع پر عمدہ کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں پروفیسر عثمان علی مرحوم کی لکھی ہوئی کتاب ‘ انقلاب گلگت’ زیادہ مشہور ہے جو اول الذکر کتب سے قدرے ضخیم بھی ہے اور زیادہ تحقیق کی حامل بھی۔ تاہم، اول الذکر چاروں کتب کے مقابلے میں ثانوی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہے۔ بہر صورت، امید واثق ہے کہ مستقبل قریب میں بھی دیگر اہم دستاویزات اور تحقیقی کاموں کے منظر عام پر آنے کے بعد تاریخ کی تاریکی مزید کم ہوگی اور مورخین و محققین تاریخ کی بھر پور روشنی میں کام کر سکیں گے۔ تب خطے کی سچی تاریخ سامنے آئے گی۔