پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ دلخراش اور شرمناک ہے۔ ستر اور اسی کی دہائیوں می یہ فسادات اُس وقت شدت اختیار کر گئے جب ضیاء الحق مسندِ اقتدار پر قابض تھے۔ اس وقت اور بعد میں بھی، پارہ چنار سے گلگت بلتستان تک اور جھنگ سے کوئٹہ تک، پاکستان فرقہ واریت کی آگ میں جلتا رہا۔ ان واقعات میں اب تک ہزاروں بے گناہ شہری لقمۂ اجل بن چکے ہیں، ہزاروں زخمی ہوئے، اور ہزاروں لوگ ہجرت کر چکے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، صرف پارہ چنار میں 2007 سے 2011 تک دو ہزار افراد فرقہ واریت کی نذر ہو گئے، جبکہ پانچ ہزار زخمی اور ہزاروں ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اسی طرح، گلگت بلتستان میں 1988 سے 2013 تک سینکڑوں لوگ فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھے، سینکڑوں زخمی ہوئے، اربوں کی املاک تباہ ہوئیں، اور ہزاروں افراد اندرونِ گلگت بلتستان یا پاکستان کے دیگر شہروں میں ہجرت کر چکے ہیں۔ کوئٹہ اور جھنگ میں طویل عرصے تک جاری فرقہ وارانہ فسادات کی داستانیں بھی اتنی ہی دلخراش اور دردناک ہیں جتنی پارہ چنار اور گلگت بلتستان کی ہیں۔
پاکستان میں فرقہ واریت کے اس افریت کے پھیلاؤ کا وہ وقت بھی دیکھا گیا جب ملک کے طول و عرض اور بڑے بڑے شہروں میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارتگری کی گئی۔ ان پرتشدد اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا، جبکہ ملک کی کئی نامور مذہبی شخصیات بھی ان واقعات کی زد میں آ کر لقمۂ اجل بن گئیں۔
پاکستان میں دہائیوں سے جاری دل دہلا دینے والے فرقہ وارانہ تشدد کی تاریخ پر متعدد کتب اور تحقیقی مقالے لکھے جا چکے ہیں۔ ان تحقیقی مقالوں میں ہوشربا حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ ان میں سے چند اہم مقالے درج ذیل ہیں:
- 2022 میں شائع ہونے والا "پاکستان میں فرقہ واریت پر ایک گہرا تبصرہ”، جو گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ کی لیکچرر ڈاکٹر طاہرہ ممتاز اور ان کے رفقاء نے تحریر کیا۔
- 2010 میں لمز کے پروفیسر محمد وسیم کا مقالہ "فخر اور دکھ کے تضادات: پاکستان میں فرقہ وارانہ تنازع اور تنازع کی تبدیلی”۔
- 2021 میں سید علی عباس کا جرنل آف پالیسی ماڈلنگ میں شائع شدہ مقالہ "پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی: وجوہات، اثرات اور علاج”۔
- پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی گلگت بلتستان کے حوالے سے 2006 اور 2013 میں شائع ہونے والی فیکٹ فائنڈنگ مشنز کی رپورٹس۔
اس کے علاوہ، مختلف یونیورسٹیوں کے پروفیسرز، طلبہ، پاکستانی اور بین الاقوامی محققین کی جانب سے لکھی گئی درجنوں کتب اور تحقیقی مقالے بھی شامل ہیں۔
ان تحقیقی مقالوں اور فرقہ واریت پر دستیاب لٹریچر کی روشنی میں یہ بات عیاں ہے کہ افغان جنگ سے کشمیر کی لڑائی تک نوجوانوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی کہانی نہیں کہ جب دنیا کی قومیں اپنے نوجوانوں کو قلم اور کتاب تھما رہی تھیں، تب ہم اپنے نوجوانوں کو بندوق تھمانے کی تلقین کر رہے تھے۔
نوجوانوں کو دی جانے والی وہ بندوق کسی بیرونی طاقت کے خلاف استعمال نہیں ہوئی، بلکہ اپنے ہی لوگوں کے قتلِ عام کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ اس کے علاوہ، عالمی طاقتوں کے فرمائشی پروگراموں کے تحت ہمارا نصاب، عام لٹریچر، ترانے، اور گانے بھی جنگ و جدل کی تعلیم دیتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری دوسری نسل اب تشدد پر یقین رکھتی ہے اور اس کی تربیت یافتہ ہے۔
ملک لہولہان ہے، لیکن ہم اب بھی مذمتی بیانات سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ ہم اس بات کا اعتراف کرنے کو بھی تیار نہیں کہ جس مقصد کے لیے نوجوانوں کو نصف صدی تک تیار کیا گیا، وہ اُسے بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ دنیا ہماری حالت پر نوحہ کناں ہے، لیکن ہمارے حکمران روایتی سوچ سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں۔ حکمرانوں کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اس ملک کا نوجوان اب چلتا پھرتا بم بن چکا ہے۔ اس لعنت کو روکنا ہمارے لیے ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ملک کی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔ فرقہ واریت کی تعلیم دینے والے اداروں پر پابندی عائد کی جائے، نصاب سے تشدد اور نفرت انگیز مواد نکالا جائے، مدارس اور پرائیویٹ اسکولوں کو قومی دھارے میں لا کر طلبہ کو ہنر مند بنایا جائے۔ عبادت گاہوں کو سیاسی اور فرقہ وارانہ مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر مکمل پابندی لگائی جائے، اور فرقہ وارانہ تنظیموں اور جنگجو گروہوں پر سختی سے قابو پایا جائے۔
جب تک مذکورہ ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے، ملک فرقہ واریت کی آگ میں جلتا رہے گا، اور ہم بے گناہ شہریوں کی خون آلود لاشیں اٹھاتے رہیں گے۔ دنیا ہم پر ہنستی رہے گی، اور ہم شتر مرغ کی طرح اپنی آنکھیں اور سر چھپاتے رہیں گے، یہاں تک کہ یہ خطرناک خون کی ہولی سب کچھ بہا کر لے جائے گی۔