ایک عہد اور ایک باب
![](https://i0.wp.com/urdu.pamirtimes.net/wp-content/uploads/2020/02/Faizi.jpg?resize=780%2C470&ssl=1)
ہز ہائی نس پرنس کریم آغا خان چہارم کی اسوان مصر میں تدفین کے ساتھ ایک عہد اور ایک باب کی تکمیل ہوئی ہے۔ آپ اسماعیلیہ فرقہ کے روحانی پیشوا ہونے کے ساتھ دنیا کی بااثر شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ اقوام متحدہ کے ممبر ملکوں میں آپ کو سربراہ مملکت اور سر براہ حکومت کا اعلیٰ رتبہ اور پروٹو کول ملتاتھا۔ آپ کے پاس ویٹی کن سٹی جیسی کوئی حکومت نہیں تھی۔ اس کے باوجود کروڑوں لوگوں کے دلوں پر ان کا راج تھا۔ اب یہ راجد ھانی آپ کے بڑے بیٹے ہزہائی نس پرنس رحیم آغاخان پنجم کے حصے میں آگئی ہے۔
آپ کی شخصیت کئی جہتیں رکھتی تھی۔ میرے حلقہ احباب میں اس کے جس پہلو کا ذکر فخر سے ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے خاندان کی صورت میں اللہ پاک نے خاتم النبئین محمد مصطفی ﷺ کی اولاد کو ہجری سن کے 1446سالوں کے بعد بھی دنیا میں بادشاہ اور حکمران کی عزت دے کر سور ہ انشراح اور سورہ کوثر میں کئے گئے دونوں وعدوں کو پورا کر کے دکھایا ہے۔ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خانوادہ نبوت مصطفوی کے شہزادے کو دنیا آج بھی بادشاہ تسلیم کرتی ہے اور بادشاہوں کا پروٹوکول دیتی ہے۔
علامہ اقبال نے اس طرح کے مظاہر فطرت کو چراغ مصطفوی کا شرار بولہبی پر غلبہ قرار دیا ہے اور اس میں دائمی صداقت کا سرنہاں موجود ہے۔
ہز ہائی نس کے خاندان کی تاریخ ڈیڑھ ہزار سالوں پر محیط ہے۔ اس کا نام ہاشمی اور فاطمی بھی ہے۔ انیسویں صدی میں ایران کے قاچار بادشاہوں نے آپ کے پڑدادا آغا حسن علی شاہ کو آغا خان کا خطاب دیا۔ وہ اس وقت کرمان کے گورنر تھے۔ ایران میں آغا کو آقا لکھا جاتا ہے اور آغا پڑھا جاتا ہے ایرانی ذولفقار کو بھی ذولفغار پڑھتے ہیں۔ ان کا بیٹا آغا علی شاہ آغا خان دوم تھے اور پوتا سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوم تھے۔ ایران سے آغا خان اول نے ہندوستان آکر ممبئی میں سکونت اختیار کی تھی،
آغا خان سوم نے برطانیہ میں تعلیم حاصل کی تھی اس لئے انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے تعلیمی سہولیات کی فراہمی میں سرسید احمد خان کے ساتھ ملکر علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کے قیام میں حصہ لیا۔ نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک کے ساتھ مل کر ہندوستان کے مسلمانوں کی پہلی سیاسی جما عت آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام میں سماجی اور مالی تعاون فراہم کیا۔
علامہ اقبال اور مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ مل کر قیام پا کستان کے لئے انگریزوں کے ساتھ مذاکرات کئے۔ گول میز کانفرنسوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ قیام پاکستان کے بعد کاروبار مملکت کو چلانے کے لئے 50لاکھ روپے کا نقد عطیہ دیا، ملک فیروز خان نون کی حکومت میں سلطنت اومان کے ساتھ گوادر کے ساحلی شہر کی ملکیت حاصل کرنے کا معاہدہ ہوا تو کمپنسیشن یعنی ازالۂ مال کے طور پر بڑی رقم کا مطالبہ کیاگیا۔ آغا خان سوم نے رقم ادا کرکے گوادر کی ملکیت کے معاہدے کو عملی جامہ پہنایا۔
سر سلطان محمد شاہ کے اباو اجداد کا پیشہ ہیرے جواہرات کے کا روبار سے وابستہ تھا آغاخان سوم نے کاروبار کا دائرہ غیر منقولہ جائیداد اور گھوڑ دوڑ تک وسیع کیا، پرنس کریم آغا خان چہارم نے کاروبار کو مزید وسعت دے کر ہوٹل انڈسٹری میں بھی نام کمایا، سماجی ترقی کے لئے عطیات جمع کرنے والے عالمی اداروں کے ساتھ تعلقات استوار کرکے افریقہ، امریکہ، یورپ اور ایشیا کے چار براعظموں کے اندر 27ممالک میں تعلیم،صحت، آبنوشی اور اسلامی ورثے کے منصوبوں کے لئے مالی وسائل فراہم کئے۔
آپ کے قائم کردہ ادارے گذشتہ نصف صدی کے تجر بات کے بعد مالی طور پرخودکفیل ہوچکے ہیں۔ نظم و نسق اور کام کے معیار کو دیکھ کر آغا خان سکول اور آغاخان ہسپتال دنیا کے بہترین اداروں میں شمار کئے جا تے ہیں یوں ۔آپ نے اپنے جانشینوں کے لئے ایسا ورثہ چھوڑا ہے جس کا مالی اور انتظامی ڈھانچہ پائیدار خطوط پر استوار ہے۔ اس کامیابی میں مالی وسائل سے زیادہ نظم و نسق اور شفافیت کا ہاتھ ہے۔ آپ کی جدائی سے ایک عہد اور ایک باب کی تکمیل ہوئی کہ ثبات اک تغیر کو ہے زما نے میں۔