
ہنزہ ایک خواب جیسا خطہ ہے، جہاں پہاڑوں کی خاموشی میں صدیوں کی کہانیاں چھپی ہیں، اور ہر گھاٹی، ہر جھیل، ہر قلعہ ماضی کے عکس کو اپنے دامن میں سنبھالے ہوئے ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی سادگی، شائستگی اور شکرگزاری میں دنیا بھر کے لیے مثال ہیں۔ ان کے نزدیک ترقی کا راستہ اقتدار کی کرسی سے نہیں، فطرت کی گود سے نکلتا ہے۔ اسی لیے ہنزہ کے باسی سیاست سے زیادہ سیاحت کو اہمیت دیتے ہیں، کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ اصل طاقت ان کے پہاڑوں، وادیوں اور مہمان نوازی میں ہے۔
ہنزہ کی تاریخ ایک دریا ہے، جو زمانوں کے پتھروں سے بہتا چلا آیا ہے۔ یہ خطہ کبھی شاہراہِ ریشم کا سنگم تھا، جہاں دنیا کی بڑی تہذیبیں ملتی تھیں۔ یہاں کے رہن سہن میں تبتی سکون، چینی نفاست اور ایرانی لطافت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ یہ صرف زمین کا ٹکڑا نہیں، بلکہ ایک زندہ تہذیب ہے۔
شسپر پیک، التر سار، بٹورا سار، پھسو کونز اور لیڈی فنگر صرف چوٹیاں نہیں، ہنزہ کی چھاتی پر سجے تاج ہیں، جو روزا سورج کی کرنوں سے جگمگاتے ہیں۔ التت اور بلتت کے قلعے صرف پتھر کی عمارتیں نہیں، بلکہ ان میں ہنزہ کی روح سانس لیتی ہے، جو ہر آتے ہوئے سیاح کو اپنی کہانی سناتی ہے۔
اور عطا آباد جھیل ایک دکھ ہے، جو قدرت نے نعمت میں بدل دیا۔ جب پہاڑ کھسکا اور زمین دریا میں گم ہوئی، تو لگتا تھا سب کچھ ختم ہو گیا۔ مگر قدرت نے اسی جگہ ایسا حسن تخلیق کیا کہ آج یہ جھیل ہنزہ کی پہچان بن چکی ہے، جہاں ہزاروں سیاح آ کر نہ صرف نظارے کرتے ہیں، بلکہ یہاں کے لوگوں کے خوابوں کو بھی سہارا دیتے ہیں۔
ہنزہ کے بازاروں میں آپ کو وہ منظر ملے گا جو شاید دنیا کے کسی اور کونے میں نہ ہو: جہاں خواتین عزت و اعتماد کے ساتھ کاروبار کر رہی ہیں، نوجوان گائیڈ، فری لانسرز اور ہوٹل ورکرز بن کر دن بھر محنت کرتے ہیں، اور شام کو تعلیم حاصل کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ جہاں گفتگو میں سیاست نہیں، بلکہ بچوں کی کامیابیوں، تعلیم، ہنر اور ترقی کا ذکر ہوتا ہے۔ “میری بیٹی جرمنی میں ہے” یا “بیٹا امریکہ میں پڑھتا ہے” — یہ جملے یہاں کی کامیابی کی زبان ہیں۔
2008 میں قائم ہونے والا "کاڈو” ادارہ اس خطے کی بے مثال سوچ کا مظہر ہے۔ خصوصی افراد کو عزت، ہنر، اور خودمختاری ملی، اور آج وہ بازاروں میں ستار بنا رہے ہیں، جوتے مرمت کر رہے ہیں، اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہیں — ایک خاموش پیغام دے رہے ہیں کہ ہنزہ میں معذوری نہیں، صرف حوصلہ ہوتا ہے۔
لیکن ہر چمک کے ساتھ ایک دھند بھی ہے۔ سیاحوں کی آمد کے ساتھ غیر منظم ترقی، اونچی عمارتیں، اور فطرت سے دور ہوتی زندگی ہنزہ کی روح کو زخم دے رہی ہے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو ہم ہنزہ کی اصل پہچان کھو بیٹھیں گے۔
یہ وقت ہے کہ ہم ہنزہ کو بچائیں، صرف زمین کے ٹکڑے کے طور پر نہیں، بلکہ ایک طرزِ فکر، ایک طرزِ زندگی کے طور پر۔ کیونکہ ہنزہ صرف ایک وادی نہیں، یہ شکرگزاری کا استعارہ ہے — وہ مقام جہاں انسان اور فطرت ایک دوسرے میں ضم ہو کر جیتے ہیں۔