کالمز

بلتستان میں ماہر ڈاکٹروں کی انتظامی تعیناتی سے طبی نظام متاثر

بلتستان، جو پہلے ہی صحت کی بنیادی سہولیات کی شدید کمی کا شکار ہے، وہاں ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹروں کی دستیابی نہایت محدود ہے۔ ایسے میں ان قیمتی طبی ماہرین کو انتظامی عہدوں پر تعینات کرنا ایک ایسا رجحان بنتا جا رہا ہے جو نہ صرف صحت کے موجودہ نظام کو مزید کمزور کر رہا ہے بلکہ ہزاروں مریضوں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔
اس پالیسی کی تازہ ترین مثال ڈاکٹر محمد آصف کی ریجنل ہسپتال سکردو میں بطور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) تعیناتی ہے۔ ڈاکٹر آصف کا شمار بلتستان کے ممتاز اور قابل سرجنوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے کیریئر میں نہ صرف ہزاروں پیچیدہ آپریشنز کامیابی سے انجام دیے ہیں بلکہ ایک قابل قیادت کی حیثیت سے سرجیکل ٹیموں کی راہنمائی بھی کی ہے۔ ان کی انتظامی تعیناتی دراصل سکردو کے مریضوں کو ایک ماہر سرجن کی خدمات سے محروم کرنا ہے، جو اس وقت خطے کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
اس سے پہلے بھی اسی نوعیت کے فیصلے کیے گئے جن کے منفی اثرات اب واضح طور پر محسوس کیے جا رہے ہیں۔ ریڈیالوجی جیسے اہم شعبے سے وابستہ ڈاکٹر محمد اشرف کو ایم ایس تعینات کیا گیا، جب کہ ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر حامد حسین کو ضلع گانچھے کا ڈی ایچ او مقرر کر دیا گیا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ضلع گانچھے کے ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال میں اس وقت کوئی ریڈیالوجسٹ موجود نہیں۔ نتیجتاً، الٹراساؤنڈ کے لئے بھی روزانہ درجنوں مریضوں کو سکردو ریفر کیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال مریضوں کے لئے نہ صرف ذہنی اور جسمانی اذیت کا سبب بنتی ہے بلکہ وقت، پیسے اور قیمتی وسائل کا ضیاع بھی ہے۔
یہ طرزِ عمل ایک ایسے علاقے میں اور بھی زیادہ نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے جہاں ماہر ڈاکٹروں کی تعداد ویسے ہی نہایت محدود ہے۔ موجودہ ماہرین کو انتظامی عہدوں پر لگا کر نہ صرف ان کی مہارت کو ضائع کیا جا رہا ہے بلکہ ان مریضوں کے ساتھ بھی زیادتی ہو رہی ہے جن کی زندگیاں ان ڈاکٹروں کی طبی خدمات پر منحصر ہیں۔
اگر انتظامی امور چلانے کے لیے اہل افراد کی ضرورت ہے تو حکومت کو چاہیے کہ غیر طبی پس منظر کے حامل آفیسران یا غیر ماہر ڈاکٹروں کو ان ذمہ داریوں کے لئے استعمال کرے۔ دنیا بھر میں ماہرین کو ان کی مہارت کے مطابق ذمہ داریاں دی جاتی ہیں، اور یہی عمل کسی بھی نظام کو مؤثر بنانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ حکومت گلگت بلتستان اپنی پالیسی پر ازسرِ نو غور کرے اور موجودہ ماہر ڈاکٹروں کو ان کے طبی فرائض پر واپس لائے۔ ڈاکٹر محمد آصف جیسے قابل سرجن کی اصل جگہ انتظامی دفتر نہیں بلکہ آپریشن تھیٹر ہے، جہاں ان کے ہاتھوں سے روزانہ کئی جانیں بچ سکتی ہیں۔ اگر واقعی مریضوں کی فلاح حکومت کا ہدف ہے تو اسے فوری طور پر اس ناقص پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button