خاموش لاشیں، گونگا نظام۔ کب جاگے گا ضمیر؟

16 مئی کو شاہراہِ بلتستان پر پیش آنے والا المناک حادثہ، جس میں چار قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، ہمارے نظام کی مکمل ناکامی کا عکاس ہے۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک چیختا ہوا سوال ہے: کیا ہمارے ہاں انسانی جان کی اہمیت صرف اس وقت پہچانی جاتی ہے جب سوشل میڈیا پر شور مچایا جائے؟
سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ متاثرہ افراد کی گمشدگی کی اطلاع کسی ادارے کے پاس موجود نہیں تھی۔ حتیٰ کہ ان کے لواحقین کو بھی یہی راستہ اپنانا پڑا کہ سوشل میڈیا پر اپیل کریں، تب جا کر حکومتی مشینری حرکت میں آئی۔ اس تاخیر کے نتیجے میں شاید ایک یا دو افراد، جو حادثے کے بعد زندہ تھے، بروقت مدد نہ ملنے کے باعث دم توڑ گئے۔
اس شاہراہِ پر سیاحوں کے علاوہ روزانہ سینکٹروں مسافر سفر کرتے ہیں شاہراہِ پر کئی چیک پوسٹیں قائم ہیں، لیکن ان کے درمیان نہ کوئی ڈیجیٹل ربط ہے، نہ ریکارڈ رکھنے کا مؤثر نظام، اور نہ ہی جواب دہی کی روایت۔ اگر ہر چیک پوسٹ پر گاڑیوں کا اندراج ہو کر اگلی چیک پوسٹ تک بروقت رسائی کی تصدیق کی جاتی، تو کسی تاخیر یا حادثے کی صورت میں فوری ایکشن لیا جا سکتا تھا۔
ٹورسٹ پولیس کو سیاحوں کی حفاظت کے لیے متعارف کرایا گیا، مگر ان کا کردار نمائشی حد تک محدود ہے۔ نہ کوئی ریئل ٹائم مانیٹرنگ سسٹم موجود ہے، نہ ہی سڑک پر مؤثر پیٹرولنگ۔
ضرورت ہے کہ اس شاہراہ کو زندگی کی شاہراہ سمجھا جائے، اور تمام مسافروں چاہے وہ مقامی ہوں یا سیاح کے تحفظ کے لئےکچھ اقدامات کی فوری ضرورت ہے کہ
ہر چیک پوسٹ پر گاڑیوں کی انٹری، نمبر پلیٹ، وقت، اور مسافروں کی تفصیل ڈیجیٹل سسٹم میں محفوظ کی جائے۔ اگر کوئی گاڑی مقررہ وقت میں اگلی چیک پوسٹ تک نہ پہنچے، تو فوری الرٹ جاری کیا جائے، شاہراہِ سکردو پر ہر وقت فعال پیٹرولنگ فورس تعینات ہو، جو ہر دو گھنٹے بعد مخصوص حصوں کا چکر لگائے۔ یہ فورس صرف سیاحوں نہیں بلکہ تمام مسافروں کی نگرانی اور حفاظت کو یقینی بنائے، ایک مرکزی ایمرجنسی کنٹرول روم اور ہیلپ لائن قائم کی جائے جو سیاحوں، مقامی مسافروں، اور ٹرانسپورٹ سروسز کے لیے یکساں طور پر دستیاب ہو۔ یہ نظام حادثات کی فوری رپورٹنگ، لوکیشن ٹریکنگ، اور ریسپانس میں مدد دے، ڈویژنل، ضلعی انتظامیہ، ریسکیو 1122 اور پولیس کے درمیان مربوط نظام وضع کیا جائے، تاکہ کوئی اطلاع ضائع نہ ہو اور فوری کارروائی ممکن ہو، مقامی آبادی کو بھی اس نظام کا حصہ بنایا جائے۔ گاڑی مالکان اور ڈرائیور حضرات کو یہ ذمہ داری دی جائے کہ وہ ہر چیک پوسٹ پر درست معلومات فراہم کریں اور کسی بھی غیر معمولی تاخیر یا حادثے کی فوری اطلاع دیں۔
یہ اقدامات خواب نہیں نیت اور ادارہ جاتی ہم آہنگی ہو تو یہ سب کچھ ممکن ہے۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ جب تک ایک مربوط، فعال، اور جواب دہ نظام نہیں بنے گا، چیک پوسٹس صرف علامتی، اور وردیاں صرف نمائشی رہیں گی۔
ہمیں جاگنا ہو گا نہ صرف سیاحوں کے تحفظ کے لیے، بلکہ اُن ہزاروں عام شہریوں کے لیے جو روزانہ اس سڑک پر اپنی زندگیوں کا سفر کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ جانیں صرف حادثے میں نہیں جاتیں، وہ نظام کی غفلت سے مرتی ہیں۔