مرد کی ازلی بدمعاشی اور عورت کشی

ایک سترہ سالہ پھول جیسی نہتی لڑکی کا دن دھاڈے ملک کے صاف ستھرے اور بظاہر پرامن شہر اور دارلخلافہ میں بے دردی سے قتل ہوتا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ اس کی مذمت کرتے ہیں ۔ میڈیا سمت ہر ذی شعور غم زدہ خاندان کی ڈھارس باندھتا ہے اور انصاف کا مطالبہ کرتا ہے۔
اسی دوران ایک عورت دشمن سوچ جو ایسے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتی سامنے آتی ہے اور کہاں کہاں سے منطقیں لاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ نہتی لڑکی کے قتل میں نہتی لڑکی کا اپنا ہی قصور ہے۔ قاتل تو بے چارا بس تھوڑا سا جذباتی ہوا تھا باقی ان کا کوئی اتنا بڑا قصور نہیں ہے ۔ پھر اس بیانیہ کے حق میں بے شمار لوگ منظر عام پر آتے ہیں ۔ ان سب کا موضوع لڑکی اور اس کا کردار ہے، لڑکا اور اس کے کردار پر یہ نہ بات کرتے ہیں نہ یہ بات سنتے ہیں۔ نہتی لڑکی کے قتل پر خوشی سے پھولے نہیں سمانے والی سوچ کے حامل ان افراد کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ نہتی لڑکی کے قتل سے ایک سماجی گندگی اور فحاشی کا خاتمہ ہوا۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا استعمال کرنے کا یہ انجام ہوتا ہے۔
یہ طبقہ یہاں بس نہیں کرتا بلکہ برزور انداز میں اہل وطن کو نصیحت بھی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ بیٹیوں کو آزادی مت دو، بیٹیوں کی صحیح تربیت کرو۔ بیٹیوں کے معاملے میں لاپرواہی مت کرو۔ ان کو چار دیواری میں بند کردو، بیٹیوں کے ہاتھ میں موبائل مت دو۔ ورنہ ہر بیٹی کا وہی انجام ہوگا جو اس نہتی لڑکی کا ہوا ہے۔ اس سوچ کے حامل طبقہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ کسی قاتل ، ریپسٹ ، جابر ، ظالم ، دردندہ صفت مرد کا نہ تو نام لیتا ہے اور نہ کھل کر اس کی مذمت کرتا ہے۔ یہ طبقہ کسی مرد کی بے حیائی ، بدمعاشی ، غنڈہ گردی ، جنسی و جسمانی دررندگی پر بھی نالاں نہیں ہے۔ یہ طبقہ نہتی لڑکیوں کی عزتیں تار تار کرنے والے درندہ نما بیٹوں کی تربیت کی بھی کھبی بات نہیں کرتا۔ اس طبقے کو عورت سے چڑ ہے۔ یہ طبقہ عورت کو معاشرہ، اقدار ، تہذیب اور اخلاقیات کے لئے خطرہ سمجھتا ہے ۔ یہ طبقہ ان تمام لوگوں کو لبرلز اور آزاد خیال ہونے کا طعنہ دیتا ہے جو عورت کے تقدس ، عزت اور تحفظ کی بات کرتے ہیں۔ یہ طبقہ خود کو اقدار، ثقافت اور تہذیب کا علمبردار کہتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ عورت کا قتل جائز ہے اگر وہ مرد کی ہر جائز نا جائز بات نہ مانے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ یہ معاملہ اس نہتی لڑکی تک محدود نہیں ہے۔ موٹر وے پر عورت کو اکیلی دیکھ کر مرد ان پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ان کا ریپ کرتے ہیں تب بھی یہی بیانات آتے ہیں ۔ اکیلی کیوں سفر کر رہی تھی۔ مرد کوئی ربوٹ نہیں ہے ، عورت کو دیکھ کر اس کا بے قابو ہونا فطری بات ہے۔ پھر خواتین کو ذندہ درگور کرنے کا واقع رونما ہوتا ہے۔ بیانات آتے ہیں کہ یہ تو ہماری عظیم روایات کا حصہ ہے۔ پھر پسند کی شادی کرنے والے ایک جوڑے کا غیرت کے نام پر قتل کا واقع رونما ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خاندان کی عزت کی بجالی کے لئے یہ ایکشن ناگزیر تھا۔ پھر ایک اور واقع پیش آتا ہے جس میں نور مقدم کا قتل ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خاتون قاتل کے گھر کیوں گئ تھی؟ جب عدالت کہتی ہے کہ مورل پولیسنگ کا کسی کو حق نہیں ہے، قانون جو کہتا ہے اس کے مطابق سزا ہوگی۔ ایسے میں بینترا بدل جاتا ہے اور فورا کہا جاتا ہے قاتل تو پاگل ہے اس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔
مذکورہ تمام واقعات اور اسی نوعیت کے دیگر واقعات کے بعد یہ تواتر سے بتایا جاتا ہے کہ عورت پر مردوں کی طرف سے جو ظلم ہوتا ہے اس ظلم کی ذمہ دار خود عورت ہے۔ جو ظلم کرتا ہے وہ بری الذمہ ہے۔ اس کے پاس مرد ہونے کا لائسنس ہے۔ وہ قتل کر سکتا ہے۔ مار سکتا ہے ، زندہ درگور کر سکتا ہے، ریپ کر سکتا ہے، عورتوں کی خریدو فروخت کر سکتا ہے، ان پر تشدد کر سکتا ہے اور وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ یہ نظریہ آج کا نہیں ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں بیٹیوں کو ذندہ درگور کرنے کے قصے جابہ جا ملتے ہیں۔ ستی ، ونی، وٹہ سٹہ، اغواء ، زبردستی کی شادی ، چہرے پر تیزاب پھینکنا ، غیرت کے نام پر قتل اور عورتوں کی خرید و فروخت کے قصے ماضی میں بھی تھے اور اب بھی سننے کو ملتے ہیں اور صدیاں گزرنے کے باوجود مرد کا خیال ہے کہ تربیت کی ضرورت صرف عورت کے لئے ہے مرد کے لئے نہیں ہے۔
مطلب یہ ہے کہ پتھر باندھے جائیں اور کتے چھوڑ دئے جائیں تاکہ وہ جو جی میں آئے کریں اور الزام واردات کرنے والوں پر نہِیں بلکہ اس کی شکار عورتوں پر ڈال دیا جائے۔ اس کو کہتے ہیں ویکٹم بلیمنگ یعنی متاثرہ فرد پر الزام لگانا اور فیمی سائیڈ یعنی عورت کشی۔
پدرشاہی نظام میں عورت کی حیثیت دراصل ایک شے کی ہے ۔ وہ نہ عقل رکھتی ہے نہ جذبات رکھتی ہے اور نہ احساسات رکھتی ہے۔ مرد عورت کے تمام امور کے فیصلے کرنے حتی کہ عورت کو ذندہ رہنے کا حق دیا جائے یا نہ دیا جائے اس کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔
اس ذہنیت کا تعلق کسی خاص مذہب ، فرقہ ، ثقافت ، زبان یا علاقہ سے نہیں ہے۔ یہ مردوں کی اس ازلی جہالت ، انا ، مستی اور غرور سے ہے جس میں وہ اپنے سے کمزور کو دبانا اور اس کو تشدد کا نشانہ بنانا اپنا حق سمجھتا ہے۔ مرد کی جاہلیت روز اول سے عیاں ہے۔ یہ کھبی عورت کو اغواء کرتا، کھبی اس کو چاردیواری میں بند کرتا، کھبی بیچتا، کھبی فروخت کرتا اور کھبی نچاتا رہا ہے۔ کمزور سمجھ کر عورت کے اوپر ظلم کرنے کی یہ داستانیں جگہ جگہ بھری ہوئی ہیں۔ اعدادوشمار اٹھا کر دیکھیں۔ پاکستان میں سالانہ پانچ سو خواتین غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں۔ تین ہزار خواتین ریپ ہوتی ہیں۔ سینکڑوں خواتین کے چہروں پر تیزاب پھینکا جاتا ہے۔ یہ صرف وہ کیسسز ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔ جو کیسسز رپورٹ نہیں ہوتے ان کی تعداد اس سے کئ زیادہ ہے۔ راقم نے یہ سطور لکھتے ہوئے سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو دیکھی جس میں دو موٹر سائیکل سوار راہ چلتی ایک برقعہ پوش خاتون کو روکتے ہیں اور ان کا پرس چھننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ خاتون مذاہمت کرتی ہے۔ ایک شخص اس خاتون کو اپنی باہوں میں لے کر دبوچتا ہے۔ وہ پھر بھی پرس نہیں چھوڑی۔ اس کو گولی مار دی جاتی ہے وہ گر جاتی ہے اور دونوں موٹر سائیکل سوار بھاگ جاتے ہیں۔ جو یہ کہتے ہیں کہ عورت باپردہ ہو تو وہ محفوظ ہے وہ جان بوجھ کر اپنی مردانہ گی کو تسکین دیتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے یہاں مردوں کی شر سے تعلیم یافتہ ، برقعہ پوش، سکول جاتی نھنی بچی سے لیکر بزرگ خاتون تک کو ئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ ان درندوں کی نشانہ عورت ہے چاہے وہ جس شکل میں اور جس حلیے میں بھی ہو۔
یہ جو طبقہ یہ ثابت کرنے کے لئے دلیلوں کے انبار لگاتا ہے کہ عورت کی غلطی کی وجہ سے وہ مار کھاتی یا قتل ہوتی ہے اس طبقے کی آنکھیں اس تمام صورتحال کو دیکھنے کے باوجود مردانہ نشے میں بند ہیں۔ ان کے اندر کا مرد دراصل ان تمام درندہ مردوں کی صف میں کھڑا ہے جو چیخ چیخ کر یہ کہتا ہے عورت مرد کے برابر انسان نہیں وہ مرد کی پراپرٹی ہے۔ مرد کو حق ہے وہ اس کے ساتھ جو سلوک کرے۔ یہ وہ مرد ہیں جو صدیوں سے اس نظریے کے حامی ہیں۔ اس نظریے کے حامی ہر مرد کو ہر وقت عورت میں ہی غلطی نظر آتی ہے۔ عورت ہی گناہ کی دعوت دیتی، عورت ہی خرابی کی جڑ ہے۔ اس طبقے کا مرد کھبی انسان بن کر نہیں سوچتا کہ عورت انسان ہے وہ عقل ، شعور اور احساسات رکھتی ہے۔ وہ آزدی سے جینے اور اپنے فیصلے کرنے کا حق رکھتی ہے۔ جب تک مذکورہ قبیل کا مرد زندہ ہے اس وقت تک وہ عورت کو انسان نہیں سجھ سکتا ۔ ایسے مردوں کو پہلے خود انسان بننا ہوگا تاکہ اس کو عورت انسان نظر آئے۔ یہ مرد جب تک عورتوں کے ساتھ انسانوں کا سلوک نہیں کرتے تب تک عورت گھر، دفتر، گلی، محلہ، گاوں، شہر اور مارکیٹ میں غیر محفوظ ہے۔ ایک مہذب معاشرہ وہی ہے جہاں انسان بستے ہوں جہاں درندہ صفت مرد بستے ہوں وہ معاشرہ انسانوں کا معاشرہ نہیں ہوسکتا۔ مذکورہ نظرے کے خاتمے کے لئے نصاب، قوانین، رویوں اور سوچ میں تبدیلی لانے کی ضروت ہے۔ اب بیٹیوں کی نہیں بیٹوں کی تربیت کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے معاشرہ جہنم بنا ہے۔ آدھی آبادی خوف سے کانپ رہی ہے۔ وہ تعلیم ، صحت، روزگار اور کسی بھی سماجی سرگرمی کو انجام دینے سے ڈرتی ہے۔ وہ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے سے کتراتی ہے۔ وہ اپنے اہل خانہ کے لئے روٹی کمانے کے لئے گھر سے نکلتے ہوئے ڈرتی ہے۔ وہ سوشل میڈیا میں آنے سے ڈرتی ہے۔ وہ ہر راہ چلتے مرد کی قہر سے ڈرتی ہے۔ یہ لعنتی مرد پھر کہتے ہیں قصور سارا اس ڈری اور سہمی ہوئی نہتی بچی کی ہے۔ وہ مرد کی بات نہیں مانتی اس لئے اس کو زندہ نہیں رہنا چاہئے۔ خوف و ہراس کا شکار یہ نصف آبادی ریاست کا منہ تک رہی ہے۔ ان کا سوال ہے کہ جس آئین میں تمام شہریوں کے یکساں کے تحفظ کی ضمانت دی گئ ہے وہ تحفظ ان کو کب نصیب ہوگا؟
ریاست قوانین کے نفاذ کے علاوہ اپنے مرتب کردہ نصاب کے زریعہ شہریوں کی تعلیم و تربیت کا بھی اہتمام کرتی ہے۔ ہمارا نصاب عورت دشمن فرسودہ سوچ کو کم کرنے کی بجائے اس میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ ریاست کی بنیادی آئینی ذمہ داری ہے کہ نصف آبادی کو درپیش ان خطرات کا ادراک کرے اور اس کا دیر پا حل نکالے ، قوانین اور پالیسیز کے ساتھ ساتھ درندہ صفت مردوں اور ان کی آنے والی نسلوں کی تربیت کا بھی اہتمام کرے کیونکہ ان غیر نسانی رویوں کا براہ راست منفی اثر ملک کی ترقی پر پڑھ رہا ہے۔