کالمز

سات چمکتے ستارے

سات ستاروں کی جھرمٹ اپنی روشنی بکھیرتے ہوئے افق سے غائب ہوگئی۔ یہ نہ صرف اپنے خاندان کے چشم و چراغ تھے بلکہ اپنی کمیونٹی، اپنے علاقے اور پوری انسانیت کے روشن ستارے تھے۔ ان کا پیشہ انسانیت کی خدمت تھا، جو انہیں وراثت میں ملا تھا، اور نسل در نسل یہ ان کی تربیت کا حصہ رہا ہے۔ یہ خدمت گار تھے، رضاکار تھے، اور ہر کام میں اول دستے کے مجاہد تھے۔

حالیہ سیلاب سے متاثرہ دنیور اور سلطان آباد کے نہری نظام کو جو نقصان پہنچا اور پانی کی شدید قلت پیدا ہوئی، تو ان رضاکاروں نے اپنی مدد آپ کے اصولِ تعلیم و تربیت کو لے کر پیاسے انسانوں، حیوانوں اور پودوں کو پانی کی بوند پہنچانے کے لیے فلسفۂ حسنیت کو یاد کرتے ہوئے اس ثواب اور کارِ خیر میں کود پڑے اور شہادت کا رتبہ حاصل کر کے امام حسین علیہ السلام کے جانثار کہلائے۔

دنیور نالہ اور اس سے منسلک نہری نظام ان شہیدوں کے آباؤ اجداد کی یادگار اور کارنامے ہیں۔ یہ شہداء اس کے وارث تھے۔ اہلِ دنیور اور سلطان آباد کو ان پر فخر ہے۔ اس کی حفاظت اور دیکھ بھال انہیں وراثت میں ملی تھی۔

کہتے ہیں: "شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔”

مجھے ان شہیدوں کی رخصتی کا منظر اور ان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا انداز بہت یادگار اور خوبصورت لگا۔ اسماعیلی رضاکاروں کے دستے نے جس انداز سے انہیں سلامی دی، اس میں ایک شان اور آن تھی۔ اپنے ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا یہ بہترین انداز ہے، اور یہ ہمیشہ اسماعیلیوں کا میراث رہا ہے۔

میری جانب سے اور اہلِ گوجال کی طرف سے ہدیۂ تعزیت۔۔۔

اے شہیدانِ وطن! تم پر سلام۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button