ضلع گانچھے میں سیلاب کی تباہ کاریاں

حالیہ بارشوں کے بعد ضلع گانچھے میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ ہلدی اور بلے گوند کے مکین اپنے گھروں سے بے دخل ہو کر خیمہ بستیوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں، مگر یہ خیمہ بستیاں ان کے لیے کسی اذیت کدے سے کم نہیں۔ پینے کے صاف پانی کی کمی، کھانے پینے کی اشیاء کی قلت اور بجلی جیسی بنیادی سہولت کی عدم دستیابی نے درجنوں خاندانوں کو کربناک حالات سے دوچار کر دیا ہے۔ پچاس سے زائد بے گھر افراد آج بھی اپنے ہی علاقے میں اجنبیوں کی طرح خیموں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ہلدی میں چھ گھر مکمل طور پر زمین بوس ہو گئے ہیں جبکہ دس کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔ اب تک 96 گھرانوں کو خیموں میں منتقل کیے گئے ہیں۔ نالے کا رخ دوبارہ آبادی کی طرف مڑنے اور مختلف مقامات پر بند ٹوٹنے سے پورے گاؤں کو خطرہ لاحق ہے۔
بلے گوند میں ہوشے نالے کے رخ بدلنے اور پانی کے دباؤ کے باعث احتیاطی طور پر 80 گھروں کو خالی کرا کے خیموں میں منتقل کیا گیا ہے تاکہ انسانی جانوں کا نقصان نہ ہو۔ اور بلے گوند کا دو میگاواٹ پاور ہاؤس بھی سیلاب کی لپیٹ میں آ گیا ہے، جس کے باعث پورا خپلو شہر کئی دنوں سے مکمل اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے۔ بجلی کی بندش نے گھریلو زندگی کو اجیرن اور کاروباری سرگرمیوں کو معطل کر کے عوام کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔
غورسے میں بھی ہر سال کی طرح اس بار بھی دریا کا پانی آبادی میں داخل ہو گیا ہے، جس سے لوگوں کی مشکلات کئی گنا بڑھ گئی ہیں۔ متاثرہ مکین خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اب تک 23 گھرانوں کو خیموں میں منتقل کیا جا چکا ہے۔
سیلابی ریلوں سے ضلع کے مختلف علاقوں میں زمینی کٹاؤ تیزی سے جاری ہے، جس سے کئی کنال زرعی زمین بہہ گئی، پھلدار اور غیر پھلدار درخت جڑوں سمیت اکھڑ گئے اور لوگوں کی کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں ہیں۔ کسان جو سال بھر کی محنت پر انحصار کرتے ہیں آج ہاتھ ملنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
کھرکوہ نالے میں آنے والے سیلاب نے بھی علاقے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ نالے کے کنارے موجود زرعی زمینیں، باغات اور مکانات پانی کی نذر ہو گئے، اس سیلاب نے نہ صرف لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچایا بلکہ روزگار اور معیشت پر بھی کاری ضرب لگائی ہے۔
سرموں اور سلترو گونما کے پل بھی پانی میں بہہ گئے ہیں جبکہ ہوشے جانے والی معلق پل بھی زیر آب آ گئی ہے جس کے باعث ہوشے کا زمینی رابطہ مکمل طور پر کٹ چکا ہے۔ پچھلے ایک ماہ سے مین روڈ زیرِ آب آنے کے باعث چھوٹی گاڑیوں کی آمدورفت بند تھی اور حکومت تماشائی بنی رہی۔ آج پل کے زیرِ آب آنے کے بعد راستہ بالکل ختم ہو چکا ہے اور ہوشے کے مکین محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔
سب ڈویژن چھوربٹ، جو دفاعی اعتبار سے بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے، وہاں بھی حالات دیگر علاقوں سے مخلتف نہیں ہیں۔ ایک ہفتے سے ایس کام سگنلز کی بندش کے باعث علاقہ مکمل طور پر بیرونی دنیا سے کٹ چکا ہے۔ عوام کا اپنے پیاروں سے رابطہ ختم ہو جانا نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ پردیس میں مقیم افراد کے لیے بھی شدید ذہنی اذیت کا باعث بن رہا ہے۔ تھوقموس کے مقام پر زرعی زمینیں اور فرانو جانے والی مین سڑک بھی زیرِ آب آ گئی ہے۔
اس وقت سب ڈویژن مشہ بروم سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے، جہاں سیلابی ریلوں نے گاؤں کے گاؤں اجاڑ ڈالے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مشہ بروم سے منتخب نمائندے گزشتہ تیس برسوں سے مسلسل اقتدار میں ہیں، مگر عوامی مسائل اپنی جگہ پر جوں کے توں ہیں۔ تین دہائیوں کی نمائندگی کے باوجود علاقے میں کوئی دیرپا منصوبہ بندی نہیں کی گئی جس کا خمیازہ آج عوام کو اپنی جان و مال اور زندگی کی بنیادی سہولتوں کے نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
یہ تمام صورتحال قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ حکومتی بے حسی اور ناقص حکمتِ عملی کو بھی بے نقاب کر رہی ہے۔ صوبائی حکومت کی جانب سے تمام دس اضلاع میں متاثرین کے لیے نو کروڈ تینتیس لاکھ روپے کی امدادی رقم تقسیم کی گئی مگر اس میں سے ضلع گانچھے کے حصے میں محض تینتالیس لاکھ روپے آئے، جو اس بڑے پیمانے پر تباہی اور عوامی مسائل کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔
کندوس کے گاؤں چھوغوگرنگ بھی پہلے ہی سیلاب سے تباہ ہو چکے ہیں اور وہاں کے لوگ آج بھی خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
حکومت فوری طور پر متاثرہ علاقوں کے مکینوں کی بحالی، بجلی اور زمینی رابطے کی بحالی، اور منصفانہ امدادی تقسیم کو یقینی نہ بنایا گیا تو عوام کا اپنی قیادت اور حکومت پر اعتماد مکمل طور پر ختم ہو جائے گا، اور یہ محرومیاں آنے والے وقت میں مزید سنگین شکل اختیار کر لیں گی۔