کالمز

بابا چلاسی کی وفات

بابا چلاسی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ
یہ خبر دل کو گہرائیوں تک لرزا دینے والی ہے۔کچھ دنوں سے طبیعت مضمحل ہے اور قلم تھامنے کی ہمت نہیں پڑ رہی، لیکن دل کا اضطراب چاہتا ہے کہ باباجی کا تذکرہ ہو، اگرچہ مختصراً ہی سہی، کیونکہ بابا جیسی شخصیات پر محض ایک تعزیتی نوٹ نہیں، بلکہ ایک مفصل اور تحقیقی مضمون درکار ہوتا ہے، جو ان کی ادبی، علمی و فکری خدمات اور امت پر ان کے احسانات کا حق ادا کرسکے۔

کسی دانا شخص نے کیا الہامی مقولہ کہا ہے۔

"مَوتُ العَالِمِ مَوتُ العَالَم”

یعنی "عالم کی موت، عالَم کی موت ہے۔”

یہ مقولہ حدیث نبوی نہیں، لیکن مفہوم کے اعتبار سے بالکل درست ہے۔ یقیناً ایک ربانی عالم کا انتقال صرف ایک شخص کی موت نہیں ہوتی بلکہ ایک پورے عالَم کے چراغ کے بجھنے کے مترادف ہوتی ہے۔
یہ ماننے میں بھی مضائقہ نہیں کہ بابا چلاسی کے انتقال کی شکل میں، امت مسلمہ کا ایک علمی و روحانی ستون گر گیا ہے، جس کا خلا صدیوں تک پر نہیں ہوگا۔ اس کیفیت کو شاعر کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

بابا چلاسی بیسویں صدی کے عالم اسلام کے اُن گنے چنے علماء میں شمار ہوتے تھے جن کی شاعری، فکر، علم، تدین، روحانیت، بصیرت، اور اخلاص نے انہیں "عالمِ ربانی” کے مقام تک پہنچایا تھا۔ وہ کسی مدرسے کے فاضل نہیں تھے مگر اللہ نے انہیں علم لدنی عطا کی تھی، ان کی زندگی علم و عمل کا ایک ایسا حسین امتزاج تھی جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

وہ محض ایک شخص نہیں بلکہ ایک تحریک، ایک مکتبِ فکر، اور ایک روشن مینار تھے، توحید الہی کے علمبردار تھے، جن کی کرنوں نے چلاس تھک کے گلی کوچوں سے نکل کر عالمِ اسلام کے دور دراز خطوں کو منور کیا۔

چلاس جیسے دور دراز علاقے نے اپنی پہچان انہی کی بدولت حاصل کی۔ آج اگر چلاس کا نام اسلامی دنیا کی علمی درسگاہوں اور عالم اسلام کی نامور علمی و روحانی شخصیات میں عزت و احترام سے لیا جاتا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ بابا چلاسی ہیں، ورنا چلاس کو کون جانتا اور جو جانتا وہ کسی اور انداز میں جانتا۔ ان کی کتب نہ صرف پاکستان بلکہ جامعہ ازہر، جامعہ ام القریٰ، اور دیگر بڑی اسلامی جامعات کے کتب خانوں کی زینت ہیں۔ آج دنیا کے مختلف ملکوں میں ان پر ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کے تحقیقی مقالات لکھے جا رہے ہیں۔ یہ محض ایک شخص کی نہیں بلکہ ایک پورے خطے کی کامیابی اور عزت ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 2008ء میں پہلی بار بابا سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ تب میں طالب علم تھا اور میرے ساتھ بھائی شیراز بھی تھے، یہ ملاقات میری زندگی کے ان نایاب لمحات میں سے ہے جنہیں یاد کر کے دل شکر گزاری سے لبریز ہو جاتا ہے۔ اس موقع پر بابا جی نے اپنی تمام تصانیف نہایت شفقت کے ساتھ مجھے تحفے میں عطا کیں جو بوری بھر کر لایا تھا۔ ان کی محبت اور علم دوستی کا یہ انداز آج بھی میری یادوں میں زندہ ہے۔ انہی دنوں ان پر ایک مضمون لکھنے کا موقع ملا، جو مختلف اخبارات اور مجلات میں شائع ہوا اور قارئین نے اسے بہت پسند کیا۔

بابا جی کی رحلت سے ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جس کا پر ہونا شاید ممکن نہ ہو، وہ اپنی ذات و صفات میں یکتا تھے، اللہ نے انہیں خصوصیت کے ساتھ الگ ہی پیدا کیا تھا۔ ان کی ذات وہ سایہ دار درخت تھی جس کے تلے ہزاروں لوگ علم، ایمان، اور رہنمائی کی ٹھنڈی چھاؤں میں آرام پاتے تھے۔ آج وہ درخت کٹ گیا، اور امتِ مسلمہ ایک عظیم سرپرست اور مربی سے محروم ہوگئی۔

ان شاء اللہ جب طبیعت کو سکون نصیب ہوگا، بابا چلاسی کی حیات و خدمات پر ایک مفصل مضمون قلمبند کروں گا، تاکہ آنے والی نسلیں اور میرے احباب اس عظیم عالمِ ربانی کے مقام اور ان کے کارناموں سے روشناس ہو سکیں۔ فی الحال اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ بابا کی وفات محض چلاس کے لیے نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کے لیے ایک سانحہ ہے۔

اللہ تعالیٰ بابا کی مغفرت فرمائے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، ان کے درجات بلند کرے، اور ہمیں ان کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button