کالمز
گلگت بلتستان کے سرکاری مکانات کی الاٹمنٹ، کرپشن کہانیاں

گلگت بلتستان کے سرکاری مکانات کا نظام ایک ایسی الجھی ہوئی کہانی ہے جو دہائیوں پر محیط ہے۔
اس کہانی کو جتنا سمجھنے کی کوشش کی جائے اتنی الجھتی جاتی ہے۔ جب بھی اس نظام کی تہہ میں جھانکا جائے تو ایک ایسی بدعنوانی، بے اصولی اور اقربا پروری کا بازار گرم نظر آتا ہے جو کسی ترقی یافتہ معاشرے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔انسانیت دھنگ رہ جاتی ہے۔
یہ نظام اس قدر بگڑ چکا ہے کہ قانون، میرٹ اور شفافیت جیسے الفاظ اس کے سامنے بے معنی دکھائی دیتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ سرکاری مکانات کی الاٹمنٹ کا بنیادی مقصد سرکاری ملازمین کو رہائش فراہم کرنا ہے تاکہ وہ اپنی سرکاری ذمہ داریاں بہتر انداز میں ادا کر سکیں۔ لیکن گلگت بلتستان میں حقیقت اس کے برعکس ہے۔ یہاں الاٹمنٹ کا کوئی واضح رول یا ریگولیشن موجود نہیں۔ اگر بالفرض کہیں یہ ضوابط موجود بھی ہیں تو ذمہ دار آفیسران یعنی الاٹ کرنے والی اتھارٹی غلطی سے بھی ان رولز کو فالو نہیں کرتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مکانات چند مخصوص خاندانوں اور بااثر شخصیات کے گرد ہی گھومتے رہتے ہیں۔
ایسے واقعات عام ہیں کہ ایک افسر جب ریٹائرمنٹ کے قریب آتا ہے تو وہ چالاکی سے مکان اپنے بیٹے، بیٹی، بیوی، بھانجے یا کسی دور کے رشتہ دار کے نام الاٹ کرا دیتا ہے۔ یہ دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی کہ باپ کا حق کیٹیگری ٹو یا تھری کے مکان پر تھا، مگر بیٹا یا بیٹی صرف کیٹیگری سکس یا سیون کے لیے اہل ہیں۔ یوں ایک ہی خاندان کئی دہائیوں تک بڑے اور قیمتی مکانات پر قابض رہتا ہے اور ان میں قسم قسم کے تجاوزات اور تعمیرات بھی کرتا رہتا ہے،جبکہ درجنوں مستحق ملازمین پوری سروس کر کے بھی اپنے حق سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ، اکثر اضلاع میں ڈپٹی کمشنرز اور بااثر افسران اپنی من مانی کرتے ہیں۔ کون سا مکان کس کو ملے گا، یہ سب ذاتی پسند و ناپسند پر طے ہوتا ہے۔ میرٹ کا نام لینا تو جیسے جرم بن گیا ہے۔
پاکستان میں سرکاری مکانات کی الاٹمنٹ کے لیے واضح اصول وضع کیے گئے ہیں، مثلاً گریڈ 22 کے افسران کو کیٹیگری ون، گریڈ 21 کو کیٹیگری ٹو، گریڈ 19 اور 20 کو کیٹیگری تھری، گریڈ 17 اور 18 کو کیٹیگری فور، اور اسی طرح نیچے کے گریڈز کو متعلقہ کیٹیگری کے مکانات ملنے چاہییں۔ کسی افسر کو صرف ایک مکان مل سکتا ہے اور اگر میاں بیوی دونوں ملازم ہوں تو بھی ایک ہی مکان یا ہائرنگ کی سہولت دی جائے گی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد چھ ماہ سے زیادہ مکان رکھنے کی اجازت نہیں۔ دوران سروس وفات کی صورت میں اہل خانہ کو 60 سال کی عمر تک مکان رکھنے کا حق دیا گیا ہے۔ سب سے اہم شرط یہ ہے کہ مکان کرایہ پر نہیں دیا جا سکتا اور اگر الاٹی خود نہ رہے تو الاٹمنٹ منسوخ کر دی جائے۔
لیکن گلگت بلتستان میں یہ تمام اصول صرف کاغذوں تک محدود ہیں۔ یہاں نظام اس قدر بگڑ چکا ہے کہ گریڈ پانچ کا ملازم بھی گریڈ بیس کے افسر کے لیے مختص مکان پر قابض ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر ایک غیر جانبدار سروے کی جائے تو حیرت انگیز کہانیاں سامنے آئیں گی، میں ذاتی طور پر سینکڑوں لوگوں کو جانتا ہوں جو میرے بچپن میں کسی مکان میں رہتے تھے، وہ ریٹائر ہوکر مربھی گئے مگر مکان انہی کے خاندان کے پاس ہے اور شاید اگلے چالیس پچاس سال بھی یہی صورتحال باقی رہے گی۔
اس بدعنوانی اور اقربا پروری کے نتیجے میں کئی سنگین مسائل پیدا ہوئے ہیں مثال کے طور پر
1. مستحق ملازمین کی حق تلفی
درجنوں محنتی اور ایماندار ملازمین پوری سروس گزارنے کے باوجود مکان کے حق سے محروم رہتے ہیں۔ اور ان میں اس ناانصافی کے خلاف غیض و غضب پایا جاتا ہے۔
2. کرپشن کا فروغ
الاٹمنٹ کے لیے سفارش، رشوت اور سیاسی دباؤ عام ہو گیا ہے، جس سے سرکاری اداروں میں بدعنوانی مزید مضبوط ہو رہی ہے۔ دیامر کی ہر دفتر میں یہی کہانیاں عام ہیں، دیگر اضلاع کا بھی یہی حال ہے۔
3. عوامی اعتماد کا زوال
جب عام ملازمین دیکھتے ہیں کہ اصول صرف کمزوروں کے لیے ہیں اور طاقتور ہر قانون سے بالاتر ہیں، تو ان کا نظام پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔
4. وسائل کا ضیاع
قیمتی سرکاری مکانات کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے اور یہ ایک خاندان کی جاگیر بن کر رہ جاتے ہیں۔ بلکہ جاگیر سمجھ کر لوگ خوش ہوتے ہیں۔
اس طرح کے درجنوں مسائل پیدا ہورہے ہیں مگر بدقسمتی سے اس کی طرف دھیان دینے والا کوئی نہیں۔ اس نظام کو درست کرنا مشکل ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات ناگزیر ہیں۔
1. آن لائن سسٹم کا قیام
تمام ملازمین کو ایک آن لائن پورٹل کے ذریعے درخواست دینے کی سہولت دی جائے۔ ہر درخواست کو میرٹ کے مطابق گریڈ اور سینیارٹی کی بنیاد پر نمٹا جائے۔ اور جب ہر چیز آن لائن ہوگا تو کرپشن میں واضح کمی آجائے گی۔
2. مدت کی پابندی
کسی بھی الاٹمنٹ کی مدت پانچ یا دس سال مقرر کی جائے۔مدت پوری ہونے پر مکان خالی کر کے دوسروں کے لیے مختص کیا جائے۔
3. ٹیکنالوجی کا استعمال
ہر الاٹمنٹ کی تفصیلات عوام کے سامنے لائی جائیں تاکہ کوئی بھی شہری دیکھ سکے کہ کون کس مکان میں رہ رہا ہے۔ تاکہ سسٹم پر عوام اور ملازمین کا اعتماد بحال ہو۔
4. سخت سزائیں
جعلی یا غیر قانونی الاٹمنٹ پر نہ صرف مکان خالی کرایا جائے بلکہ متعلقہ افسر کے خلاف کارروائی کی جائے۔
ماہرین بیٹھ کر اس طرح کے اور اصول وضع کرسکتے ہیں جن کے ذریعے مکانات کی الاٹمنٹ میں شفافیت لائی جاسکتی ہے۔
چیف سیکریٹری گلگت بلتستان اور اعلیٰ حکام سے ہماری پُر زور گزارش ہے کہ اس بدعنوان اور بوسیدہ نظام کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کریں۔ سیکرٹری سید وحید شاہ صاحب کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو ایک آن لائن شاندار میکنزم وضع کرے اور انصاف پر مبنی اصول و ضوابط مرتب کیے جائیں اور گلگت بلتستان کابینہ سے منظوری لے لی جاوے، یہ صرف سرکاری مکانات کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ پورے سرکاری نظام کی شفافیت اور عوامی اعتماد کا امتحان ہے۔ اس امتحان میں کامیابی کے لیے ایک ایسا ڈیجیٹل، شفاف اور میرٹ پر مبنی نظام قائم کریں جہاں کسی افسر، سیاستدان یا بااثر شخص کی مداخلت نہ ہو۔ یہ اقدام نہ صرف ہزاروں ملازمین کے لیے انصاف کا ذریعہ بنے گا بلکہ گلگت بلتستان کے سرکاری اداروں کو کرپشن کے دلدل سے نکالنے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔
یاد رہے! یہ صرف سرکاری مکانات کا مسئلہ محض رہائش کا نہیں بلکہ انصاف،میرٹ اور نظام کی شفافیت کا ہے۔اگر آج اس بدعنوانی، کرپشن، اقرباء پروری اور عدم مساوات کو ختم نہ کیا گیا تو آنے والی نسلیں بھی اسی اندھیر نگری کا شکار رہیں گی۔ وقت آگیا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ایک مضبوط، شفاف اور منصفانہ نظام کی بنیاد رکھیں تاکہ ہر ملازم اپنے حق تک رسائی حاصل کر سکے۔