کالمز

گلگت بلتستان: طاقت کا توازن اور پائیدار امن

ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ گلگت بلتستان ہماری ماں دھرتی ہے۔ یہاں کے پہاڑ، جنگلات ، دریا، وادیاں اور بستیاں ہمارے مشترکہ جذبات، مسائل اور مفادات کی گواہ ہیں۔ میں یہ بات درجنوں نہیں، بلکہ سینکڑوں بار مختلف زاویوں، مکالموں اور تحریروں میں بیان کر چکا ہوں۔ میرے بیشتر کالمز اور کئی تقاریر اسی موضوع پر گواہ ہیں، اور گلگت بلتستان میں قیامِ امن پر میں نے پانچ سو صفحات پر مشتمل تحقیقی مقالہ بھی تحریر کیا۔

لیکن آج ایک بار پھر، پوری ایمانداری، درد اور خلوصِ نیت کے ساتھ یہ بات دہرانا چاہتا ہوں کہ

"اگر گلگت بلتستان میں پائیدار امن مطلوب ہے تو اس خطے میں طاقت کا توازن (Balance of Power) قائم کرنا ناگزیر ہے۔”

طاقت کے توازن کے بغیر یہ خطہ کبھی بھی حقیقی امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا۔

طاقت کے توازن کی ضرورت

میں نے اس موضوع پر ہر برادری کو نہایت اخلاص کے ساتھ مخاطب کیا ہے،
اسماعیلی بھائیوں کو بھی، اہلِ تشیع کو بھی، اور اہلِ سنت کو بھی۔

اسماعیلی برادری سے میں نے ہمیشہ یہ عرض کیا کہ آپ تعلیم، صحت اور جدید شعبوں میں دوسری برادریوں کو ساتھ لے کر چلیں۔
جب جب تقریر و تحریر کے ذریعے یہ بات کہی تو تعریف ضرور ہوئی، واہ واہ کے تبصرے بھی آئے، لیکن عملی طور پر وہ اپنی کمیونٹی کو ہی آگے لے کر بڑھے۔
انہوں نے تعلیم، صحت، اور جدید سکلز میں نمایاں ترقی تو کی، لیکن دوسرے طبقات کو پروجیکٹ سطح پر شامل نہیں کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف ترقی تھی، مگر دوسری طرف فاصلے بڑھ گئے۔

اہلِ تشیع برادری کو، انہیں کالمز میں ، میں نے کئی بار توجہ دلائی کہ 1990ء سے 2017ء تک گلگت بلتستان میں درجنوں امن معاہدے اور ضوابطِ اخلاق طے پائے۔ لیکن افسوس کہ ان امن معاہدات پر عملدرآمد اور ترویج کے لیے وہ برادری، جو سب سے منظم اور بڑی ہے، آگے نہ بڑھ سکی۔ یہی وہ کوتاہی تھی جس نے خطے میں طاقت کا بیلنس بگاڑا اور بدامنی نے جنم لیا۔

اہلِ سنت برادری کو میں نے اپنی بیسیوں تحریروں میں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ترقی، تعلیم، صحت، جدید سکلز، اتحاد و تنظیم اور اجتماعی شعور کے بغیر کوئی قوم آگے نہیں بڑھ سکتی۔ لیکن بجائے "لبیک” کہنے کے، مجھے تنقید اور طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا۔
سچ کہوں تو بعض لوگوں نے مجھے گالی بنا کر رکھ دیا۔
حالانکہ میرا مقصد ہمیشہ اصلاح، توازن اور خیرخواہی رہا ہے۔

میں آج پھر، دکھ، خلوص اور سچائی کے ساتھ اپنی تینوں برادریوں سے مخاطب ہوں

1.⁠ ⁠میرے اسماعیلی بھائیو!

جنت نظیر خطہ گلگت بلتستان میں طاقت کے توازن اور امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ آپ تعلیم، صحت اور جدید سکلز میں دیگر برادر کمیونٹیز کو عملاً شامل کریں۔ یہ کام آپ کو اپنے پچاسویں امام کی رہنمائی، مشاورت اور سرپرستی میں بڑے پیمانے پر کرنا چاہیے۔

2.⁠ ⁠اہلِ تشیع کے اکابرین اور نوجوانو!

آپ چونکہ گلگت بلتستان کی سب سے منظم اور بڑی برادری ہیں، لہٰذا امن معاہدات و ضوابط کی ترویج، تنفیذ اور عملی شکل دینے میں پہل آپ کو کرنی چاہیے۔ آپ کو امن کی خاطر جتھوں کی یرغمالیت سے نکل کر ایک بہترین اور منظم کمیونٹی کا ثبوت دینا ہوگا

3.⁠ ⁠اہلِ سنت کے علماء، نوجوانو اور بزرگو!

آپ تعلیم، صحت اور جدید سکلز میں اسماعیلی کمیونٹی سے سیکھیں، اور اتحاد، سیاسی آگہی اور تجارت کے حوالے سے اہلِ تشیع کا طرزِ عمل اپنائیں۔یہی باہمی سیکھنے اور اشتراک کا راستہ، توازن اور استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے۔

اگر ہم نے تعلیمی، معاشی اور سماجی بنیادوں پر طاقت کا توازن قائم کر لیا، تو گلگت بلتستان میں سیاسی استحکام بھی آئے گا،اور یہی استحکام امن و خوشحالی کی ضمانت بنے گا۔

لیکن اگر ہم نے اس پہلو کو نظرانداز کیا، تو یاد رکھئے یہ خطہ ہمیشہ بدامنی، تقسیم اور عدم استحکام کا شکار رہے گا، اور ہم سب تباہی اور محرومی کے دائرے میں گھومتے رہیں گے۔

لہٰذا، آئیے سنجیدگی سے غور کریں، کیونکہ ہر فیلڈ میں طاقت کا توازن ہی گلگت بلتستان کے امن، ترقی اور بقا کی کنجی ہے۔

میں جانتا ہوں ،آپ سب اس وقت ذہنی و قلبی تناؤ کے دور سے گزر رہے ہیں، یہ ماننا پڑے گا کہ حالات نے اضطراب اور بےچینی کی چادر تانی ہوئی ہے۔
مگر خدارا، کبھی سکون دل سے بیٹھ کر غور کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟
یہ خطہ، یہ وقت، یہی موقع شاید ہمیں سوچنے، سمجھنے اور سنبھلنے کا اشارہ دے رہا ہے۔

کیا میرا یہ درد محض الفاظ کا جادو ہے، یا واقعی سچائی کی ایک چمک اس میں موجود نہیں؟

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button