سینٹر فار پیس اینڈ ڈائیلاگ

گیارہ جولائی 2025 کی ایک شام اچانک دل میں خیال آیا کہ گلگت بلتستان میں ایک ایسا ادارہ ہونا چاہیے جو صرف اور صرف قیامِ امن، مکالمے اور سماجی ہم آہنگی و انصاف کے لیے قائم ہو۔ جولائی کی جھلساتی ہوئی شام، میں نے اس خیال کا ایک مختصر خاکہ لکھا اور احباب سے شیئر کیا۔ پھر وقت کے دھندلکوں میں وہ تحریر کہیں گم ہو گئی۔ آج اچانک وہی خیال پھر سے جاگ اٹھا تو میں نے پرانی تحریر ڈھونڈ نکالی۔ سوچتا ہوں، کیوں نہ وہی خواب ایک بار پھر لفظوں کی صورت میں زندہ کیا جائے۔ اور اس کو مزید وسیع کرکے لکھا جائے، تاکہ سمجھنے والے پوری بات سمجھ سکیں۔ تب کا آئیڈیا "اسکول آف پیس اینڈ ڈائیلاگ” کے عنوان سے تھا، اب اسی کو مزید مدلل و مبرہن کرکے پیش کرتے ہیں۔
کبھی کبھی دل کے نہاں خانے میں ایک چراغ جلتا ہے۔ جی ہاں! وہ خوابوں کا چراغ ہوتا ہے، ایک ایسا خواب جو سچ ہو تو صدیاں سنور جائیں، اور اگر خواب ہی رہ جائے تو نسلیں وہی پرانی گلیوں میں بھٹکتی رہتی ہیں، جہاں تنگ نظری، عدم برداشت، نفرت اور تعصب کی ہوا ہر آنگن کو ویران کرتی ہے۔ اور بستیوں کی بستیاں برباد ہوتیں رہیں۔ آپ ذرا گزشتہ دو ہفتوں کی واقعات کا جائزہ لیں، میرا پیارا گلگت بلتستان کس قسم کی قرب ناک صورتحال سے گزرا، لمحوں کی خطا نے پورے جی بی کو خاک و خون میں نہلانا تھا مگر اللہ کا کرم ہوا۔ اللہ نے ایک بار پھر گلگت بلتستان کو خاک و خون میں لت پت ہونے سے بچایا ورنہ پلاننگ پوری تھی۔
اللہ کی کتاب میں ایسی صورت حال کے لیے واضح رہنمائی موجود ہے۔ سورہ حجرات میں اللہ کا ارشاد ہے
"وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا” (الحجرات: 9)
"اور اگر دو گروہ مومنوں میں سے آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کراؤ۔”
یہ آیت کریمہ محض ایک حکم نہیں، بلکہ امن کی ابدی تعلیم ہے،امن کے لیے پوری عمارت ہے، کہ معاشرے کی بقا، تلوار سے نہیں، مکالمے اور مصالحت سے ممکن ہے۔ تلواروں سے ترقی کرنے والے معاشرے دیرپا نہیں ہوتے، البتہ علم و دانش اور مکالمہ و تحمل سے ترقی پانے والے ممالک، قومیں اور معاشرے شجرہ طیبہ کی طرح جڑیں زمین میں پیوست رکھتے ہیں اور تنے آسمانوں پر برگ و بار پھیلاتے ہیں۔
گلگت بلتستان، یہ حسین وادی، جسے قدرت نے پہاڑوں کی عظمت، دریاؤں کی صداقت اور فضاؤں کی پاکیزگی سے مالامال کیا، افسوس کہ ہم نے اسی جنت نظیر خطے کو کبھی فرقہ واریت کی آگ میں جھلسایا، کبھی لسانی و قبائلی تعصب کی دھول سے دھندلا کیا، اور کبھی سیاسی خود غرضیوں کی بھینٹ چڑھایا۔ کھبی گروہی مفادات پر قربان کیا اور کبھی شخصی خواہشات آماجگاہ بنا دیا۔
جب جب اس دھرتی پر لاشیں گریں، جب جب کسی ماں نے لحد میں اپنے جوان کو اتارا، جب جب مساجد و امام بارگاہوں اور جماعت خانوں کو خون سے رنگا گیا، تب تب ایک خواب میری آنکھوں کے در پر دستک دیتا رہا،
وہ خواب ہے”سینٹر فار پیس اینڈ ڈائیلاگ” یعنی مرکز امن و مکالمہ۔
جب بھی کہیں اکیلا بیٹھ جاتا ہوں، حالات و واقعات کا جائزہ لیتا ہوں اور سنجیدگی سے سوچنے لگتا ہوں کہ کیوں نہ ایک ایسا ادارہ قائم ہو جہاں نفرتوں کی جگہ محبت کا درس دیا جائے؟
جہاں جوانوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں، پتھر، یا اسلحہ نہ ہوں، بلکہ قلم ہو، کتاب ہو، اور لفظوں کا جادو ہو۔ الفاظ کی ہیرا پھیری ہو، دلائل کی خوشبو ہو، جہاں اختلاف کو دشمنی میں بدلنے کے بجائے احترام میں ڈھالنا سکھایا جاتا ہو۔
نبی کریم ﷺ کا یہ مبارک ارشاد ریاستی اور انتظامی سطح پر اوجھل کیوں رہتا ہے؟
"أفضل الصدقة إصلاح ذات البين” (سنن ابی داود)
"سب سے بہترین صدقہ لوگوں کے درمیان صلح کرانا ہے۔”
یہ ادارہ صرف ایک سینٹر نہ ہو، بلکہ ایک فکری تحریک ہوایک پالیسی ساز ادارہ ہو، یہاں نوجوانوں کو سکھایا جائے گا کہ مسلک کوئی دیوار نہیں، زبان کوئی فاصلہ نہیں، اور رنگ و نسل کوئی تفریق نہیں۔ یہاں علما، اساتذہ، طلبہ، خواتین اور دانشور سب ایک دائرے میں بیٹھیں گے، اور خاموشی کے شور میں محبت کی زبان بولیں گے۔
یہ کوئی دیوانے کا خواب نہیں، کوئی خیالی قصہ نہیں۔ اگر حکومتِ گلگت بلتستان اور اس کی منتخب اسمبلی چاہے تو یہ ادارہ صرف ہمارے کالم تک محدود نہیں رہے گا بلکہ زمین پر اتر آئے گا۔
قانون سازی کی جائے، بجٹ مختص کیا جائے، اور چند سنجیدہ دماغوں کو اس منصوبے پر لگایا جائے۔
جب سڑکیں، عمارتیں اور ترقیاتی منصوبے بن سکتے ہیں تو امن کے ایک چراغ کے لیے کیا ایک شمع جلانا بھی مشکل ہے، کل کسی بیٹھک میں سابق سی ایم حافظ حفیظ الرحمن سے تفصیلی گفتگو ہوئی تھی، وہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے امن کا نعرہ لگا کر الیکشن جیتا تھا اور پھر پانچ سال امن قائم کرکے دکھایا، کاش! وہ ایک ایسا ادارہ قائم کرکے جاتے، جو گلگت بلتستان میں ایک مثالی ادارہ بن جاتا، ان تک میری آواز پہنچتی ہے اور انہیں دوبارہ موقع ملتا ہے تو وہ یہ کام ضرور کریں۔
یاد رکھیں! آج کے بدلتے سیاسی و مذہبی رویے، اور بڑھتی ہوئی فکری خلیج ہمیں پکار رہی ہے کہ ہم ایک ایسا ریسرچ سینٹر قائم کریں جو ماضی، حال اور مستقبل کو جوڑ کر امن و ہم آہنگی کا نیا راستہ بنائے۔
یہ ادارہ گلگت بلتستان کی تاریخ، ثقافت، روایات اور مذہبی تنوع کا مطالعہ کرے گا، اور ماضی کے امن معاہدات اور صلح ناموں کو محفوظ بنائے گا۔
کل تک دشمن قبائل ایک دسترخوان پر بیٹھ سکتے تھے، فرقے صلح کے معاہدے کر سکتے تھے، اور عوام نفرتوں کے بجائے اتحاد کو ترجیح دے سکتے تھے، تو آج کیوں نہیں؟
آج اس کا عملی خاکہ مختصراً پیش کرتا ہوں ملاحظہ کیجیے۔
۱۔وژن
گلگت بلتستان کو ایک ایسا خطہ بنانا جہاں ہر اختلاف مکالمے سے حل ہو، ہر زبان عزت پائے، اور ہر مسلک کو احترامِ انسانیت کے رشتے سے جوڑا جائے۔
۲۔ مشن
امن، تحقیق اور تعلیم کے ذریعے سماجی انصاف کو فروغ دینا، نوجوان نسل میں برداشت،تعاون اور فکری ہم آہنگی پیدا کرنا اور مختلف مکاتبِ فکر کو ایک میز پر بٹھا کر مفاہمت کی روایت زندہ کرنا۔
۳۔ مقاصد
اس سینٹر کے درج ذیل اہم مقاصد ہوسکتے ہیں۔
1. گلگت بلتستان کے لیے امن ماڈلز پر تحقیقی دستاویزات تیار کرنا۔
2. تعلیمی اداروں میں Peace Education Curriculum متعارف کرانا۔
3. سالانہ Dialogue Summits اور سیمینارز منعقد کرنا۔
4. میڈیا، جامعات، مساجد، اور خواتین تنظیموں کو شامل کر کے امن کا سماجی نیٹ ورک بنانا۔
ان مقاصد کے سوا اس ادارے کی بہت ساری سرگرمیاں بھی ہوسکتی ہیں۔ ان میں بطور خاص نوجوانوں کو امن کے سفیر کے طور پر ایجوکیٹ کرنا، محلوں، بیاک،جرگوں اور عوامی مقامات پر مکالماتِ امن کا رواج ڈالنا، اخبارات خصوصی میں ایڈیشن شائع کرانا، ویب سائٹ بناکر تحقیقی مضامین ، کالم اور عملی ایکٹیویٹیز منعقد کرنا، اور معاشرے کے تمام طبقات میں جو لوگ امن، رواداری، یکجہتی اور سماجی انصاف کے لیے کام کرتے ہیں، ان کی مختلف شکلوں میں حوصلہ افزائی کرنا وغیرہ شامل ہوسکتی ہیں، ان سرگرمیوں سے بہت بہتری آسکتی ہے۔
انتظامی طور پر بھی اس کو ایک مثالی ادارہ بنایا جاسکتا ہے، گلگت بلتستان کے معتبر علماء کرام، اسلامک اسکالرز، ماہرین تعلیم اور سماجی رہنماؤں پر مشتمل ایک پیس بورڈ قائم کیا جاسکتا ہے، جس کی مثال ہمارے مساجد بورڈ کی ہے، اس کے ساتھ گلگت بلتستان کے مذہبی، تاریخی و سماجی مطالعات کے ماہرین کی ایک تحقیقی ونگ کا انعقاد بھی ضروری ہے، اور ساتھ ہی یوتھ اینڈ وویمن فورم کے ذریعے قیام امن کے لیے نوجوانوں اور خواتین کے فعال کردار کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ مردوں کے اس سماج میں نوجوان اور خواتین قیام امن کے لیے بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں، نوجوانوں میں آگے بڑھنے اور خواتین میں رواداری، نرم دلی اور ماننے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہیں تو وہ کردار بھی بہتر ادا کرسکتی ہیں۔
میرے احباب اس سب جمع خرچ کے بعد، سوال اٹھا سکتے ہیں کہ یہ سارے کاموں کے لیے بجٹ کہاں سے آئے گا۔؟ تو عرض ہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے ذریعے "Peace & Dialogue Act” کی قانون سازی ہونی چاہیے، اس کا لازمی تقاضہ یہ ہوگا کہ سرکاری بجٹ میں ایک مستقل فنڈ کی منظوری ہوگی۔ اسی کیساتھ دنیا بھر میں قیام امن اور معاشرتی رواداری اور مکالمے کے لیے کام کرنے والے اداروں (UNESCO، AKDN، Peace Direct وغیرہ) کے ساتھ اشتراک کے ساتھ اشتراک عمل بھی کیا جاسکتا ہے اور یوں ان سے مالی، علمی، عملی اور طریقہ کار میں معاونت بڑے پیمانے پر ہوگی۔
میرے پیارے قارئین! اگر یہ خواب تعبیر پا گیا تو یقین مانیے، یہ ادارہ صرف گلگت بلتستان نہیں بلکہ پورے پاکستان کے لیے روشن مثال بنے گا۔
یہ "سینٹر فار پیس اینڈ ڈائیلاگ” ایک عمارت نہیں، ایک سوچ ہوگی، ایسی سوچ جو بندوق، نفرت، کینہ، تعصب اور خاک و خون کے دھوئیں میں گم ہوتی انسانیت کو محبت، مکالمے اور شعور کا نیا آسمان دکھائے گی۔ یہی درس میرے پیارے حبیب صل اللہ علیہ والہ وسلم کا بھی ہے۔
"المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضاً”(صحیح بخاری)
ترجمہ : مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔
کیا یہی وہ فکر نہیں ہے جو ہم سب کو جوڑ سکتی ہے؟
اگر ہم سنجیدہ ہوں، مخلص ہوں، اور دل میں امن کا چراغ روشن کریں تو کیا مشکل ہے؟
یہی خواب ہے، یہی ضرورت ہے، یہی ہماری آنے والی نسلوں کے لیے سب سے قیمتی تحفہ ہے۔ کیا ہم خاک و خون ہونے سے پہلے اپنی نیو جنریشن کو یہ قیمتی تحفہ دے سکیں گے؟