انڈس کوہستانی زبان اور مصنوعی ذہانت

تحریر: سیف اللہ جیلانی
فورم برائے انڈس کوہستانی تحقیق و ثقافتی ترقی (فِکْر)، کوہستان و گلگت بلتستان
انڈس کوہستانی زبان، جس کا عالمی نام انڈس کوہستانی اور آئی ایس او کوڈ [ایم وی وائی] ہے، شمالی پاکستان کے دریائے سندھ کے مغربی کنارے، دوبیر، کندیا، اتھور، سیو، پٹن، رانولیا، جیجال اور کیال کی وادیوں میں بولی جاتی ہے۔ کوہستان سے باہر یہ زبان دیامر، گلگت، استور اور غذر کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے وانگت ضلع میں بھی مستعمل ہے۔ مقامی لوگ اسے "کوستئیں” کہتے ہیں۔ اس کے الفاظ میں وہی سادگی، سختی اور فطری آہنگ ہے جو کوہستانی معاشرت کی پہچان ہے۔
وقت کی رفتار اب تاریخ کے پیمانوں سے نہیں ناپی جا سکتی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایسی برق رفتار گردش میں ڈال دیا ہے کہ صدیوں کے فاصلے اب مہینوں اور دنوں میں سمٹ آئے ہیں۔ لیکن ترقی کی یہ دوڑ جہاں ایک طرف نئی راہیں کھول رہی ہے، وہیں کئی صدیوں پرانی آوازوں کو خاموش بھی کر رہی ہے۔ وہ آوازیں جو کبھی پہاڑوں، وادیوں اور دریاؤں کے سنگھ میں گونجتی تھیں؛ وہ زبانیں جو انسان کی روح سے پھوٹی تھیں، مگر اب مشینی شور میں دب کر مٹنے کے قریب ہیں۔
لسانی ماہرین کے مطابق کبھی دنیا میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب زبانیں بولی جاتی تھیں، لیکن اب یہ تعداد گھٹ کر سات ہزار کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔ ان میں سے بھی تقریباً آٹھ سو ساٹھ زبانیں معدومی کے دہانے پر کھڑی ہیں۔ انڈس کوہستانی بھی انہی خطرے سے دوچار زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس زبان کی سب سے بڑی رکاوٹ ایک مستحکم رسم الخط کی عدم دستیابی تھی۔ تاہم 2020 میں اس کے مخصوص حروف کو یونی کوڈ میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی، جس کے بعد ایف ایل آئی (Forum for Language Initiatives) کی زیر نگرانی اہلِ قلم نے باہمی مشاورت سے ایک متفقہ رسم الخط مرتب کیا۔ بعد ازاں اس زبان کا اینڈرائیڈ کیبورڈ تیار ہوا، اور ڈاکٹر حسین احمد فیضی نے انڈس کوہستانی کیبورڈ برائے وِنڈوز بھی تخلیق کیا، جس سے زبان کے تحفظ اور تحریری اظہار میں نئی جان پیدا ہوئی۔
اسی تسلسل میں فورم برائے انڈس کوہستانی تحقیق و ثقافتی ترقی (فِکْر)، کوہستان و گلگت بلتستان نے زبان کے ڈیجیٹل مستقبل کے لیے ایک منظم مہم شروع کی۔ راقم السطور بمعہ اپنی ٹیم نے انڈس کوہستانی زبان کی ریکارڈنگ، ڈیجیٹل آرکائیو سازی، اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے اس کے تحفظ کا ایک جامع منصوبہ وضع کیا۔ ایک کمیونٹی بیسڈ ڈیٹا سیٹ تیار کیا جا رہا ہے جس میں مقامی بولنے والوں کی آوازیں، محاورے، روزمرہ جملے، اور صوتی نمونے محفوظ کیے گئے ہیں۔ یہ ڈیٹا مستقبل میں ایسے منصوبوں کی بنیاد بنے گا جن کے ذریعے مشینوں کو انڈس کوہستانی سمجھنے اور بولنے کی تربیت دی جائے گی۔
یہ کام عالمی رجحان سے جڑا ہوا ہے۔ جیسے “Common Voice” کے تحت دنیا بھر کی زبانوں کی ریکارڈنگ ہو رہی ہے، ویسے ہی اب انڈس کوہستانی بھی اس فہرست میں شامل ہونے جا رہی ہے۔ اس پیش رفت کے نتیجے میں یہ زبان صرف ماضی کا ورثہ نہیں بلکہ مستقبل کی ڈیجیٹل زبان بننے کی راہ پر ہے۔
اس منصوبے کی ریڑھ کی ہڈی ایک مخلص اور ماہر ٹیم ہے۔
پراجیکٹ ریسرچر اینڈ لینگویج کنسلٹنٹس: ڈاکٹر حسین احمد فیضی، طالب جان اباسندھی
لوکلائزیشن ایکسپرٹ: مفتی رشید احمد فیضی
وائس ممبرز: محمد جاوید کوہستانی، مولوی ظہور الحق، مولانا مجیب الحق، انجنیئر عاصم حسن، عبدالحفیظ کاکا خیل، شمس العالمین کاکا خیل، اقبال اباسینی، کلیم احمد عثمانی، گل محمد اباسندھی، عبدالعزیز، اور سید سیف اللہ جیلانی
یہ تمام کوششیں فکر فورم کوہستان و گلگت بلتستان کے زیر نگرانی جاری ہیں۔ فورم نے ایک تسلسل کے ساتھ ان منصوبوں پر کام شروع کیا ہے جن میں سے کچھ مکمل ہو چکے ہیں اور کچھ مسودہ کی سطح پر ہیں، جن میں اہم پروجیکٹس درج ذیل ہیں:
عورتوں کے احکام پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے 40 فرامین کا انڈس کوہستانی میں عربی سے ترجمہ۔
عربی معلقاتِ سبعہ قصائد کا انڈس کوہستانی ترجمہ۔
ابو الحسن علی ندوی کی قصص النبیین کا انڈس کوہستانی ترجمہ۔
بچوں کے لیے مختصر مصور کہانیاں، جیسے شیر اور تین بیل، گنجا آدمی، پرندوں کی کہانیاں وغیرہ۔
قرآنِ مجید کے آخری پارے کا ترجمہ و تفسیر۔
شاری کے نام سے سہ ماہی مجلے کا اجراء۔
سوشل میڈیا پر اہل قلم اب انڈس کوہستانی میں اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔
ویڈیو کے ذریعے مادری زبان میں پیغام رسانی اور لسانی بقا کی مہم جاری ہے۔
سیرت النبی پر مختصر کتاب، آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، کا انڈس کوہستانی ترجمہ بنام "ساوات نبی”۔
یہ تمام علمی و تخلیقی مواد ڈیجیٹل شکل میں محفوظ کر کے عالمی آرکائیو ڈیٹابیس میں اپلوڈ کیا جا چکا ہے تاکہ آنے والی نسلیں اس سے مستفید ہو سکیں۔
مصنوعی ذہانت کے ذریعے اب ترجمہ، آواز کی شناخت، لغت سازی، اور لسانی تربیت جیسے میدان انڈس کوہستانی میں بھی ممکن ہو رہے ہیں۔ مستقبل قریب میں ایسے نظام سامنے آئیں گے جو بولے گئے الفاظ کو تحریر میں بدل سکیں گے، یا موبائل ایپس کے ذریعے نئی نسل کو اپنی مادری زبان سکھا سکیں۔
یہ تحریک دراصل زبان کے ساتھ تہذیب کی بقا کی کوشش ہے۔ جو قوم اپنی زبان کھو دیتی ہے، وہ اپنی یادداشت، اپنی تاریخ اور اپنی شناخت بھی کھو دیتی ہے۔ انڈس کوہستانی زبان کے لیے یہ جدوجہد ایک زندہ ثبوت ہے کہ پہاڑوں کی زبان ابھی زندہ ہے۔ جب تک اس کے بولنے والے سانس لیتے ہیں، یہ زبان زندہ رہے گی۔
مصنوعی ذہانت اب انڈس کوہستانی کے لیے صرف ایک سائنسی سہولت نہیں، بلکہ اس کے وجود کی توسیع ہے۔ یہ ماضی کی گم شدہ آوازوں کو مستقبل کے ڈیجیٹل افق سے جوڑنے کا وسیلہ بن چکی ہے۔ اور جب کبھی مشینیں انڈس کوہستانی میں بولنا سیکھیں گی، تو یہ اس بات کا اعلان ہوگا کہ پہاڑوں کی زبان اب محض تاریخ نہیں — زندہ روایت ہے۔




