کالمز

پیپلز پارٹی جی بی — سید مہدی شاہ اور این ایف سی ایوارڈ

 گلگت بلتستان کی سیاست میں بعض شخصیات ایسی بھی ہیں جو جماعتی وابستگی کے باوجود اصولی موقف، سنجیدہ طرزِ فکر اور دلیل پر مبنی گفتگو کی وجہ سے پہچانی جاتی ہیں۔ گورنر گلگت بلتستان سید مہدی شاہ کا شمار بھی انہی مدبر اور سنجیدہ سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم رہنما ہیں، تاہم گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کے بعض دیگر قائدین کے برعکس وہ ’’مخالفت برائے مخالفت‘‘ کے قائل نہیں۔ ان کا سیاسی رویہ یہ رہا ہے کہ وہ ہر معاملے کو دلیل، منطق اور قومی مفاد کے تناظر میں پرکھتے ہیں، اور اگر کسی مؤقف میں وزن ہو تو اسے قبول کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے۔
گزشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سید مہدی شاہ نے ایک نہایت اہم اور دور رس نتائج کے حامل معاملے پر کھل کر اظہارِ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات سننے میں آ رہی ہے کہ وفاقی حکومت، میاں نواز شریف کی ہدایات کے مطابق، گلگت بلتستان کو این ایف سی ایوارڈ میں حصہ دینے پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔ ان کے مطابق اگر واقعی ایسا ہو جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں نہ صرف گلگت بلتستان کی معاشی تقدیر بدل سکتی ہے بلکہ یہ خطہ مالی طور پر خودکفیل ہونے کی سمت ایک بڑا قدم بھی اٹھا سکے گا۔
سید مہدی شاہ نے اپنے خطاب میں واضح الفاظ میں کہا کہ اگر مسلم لیگ (ن) این ایف سی ایوارڈ میں گلگت بلتستان کو حصہ دلانے کے معاملے میں مخلص اور سنجیدہ ہے تو وہ ذاتی اور جماعتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کے قومی اور اجتماعی مفاد میں اس کوشش کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ انہوں نے یہاں تک اعلان کیا کہ اگر یہ پیش رفت عملی شکل اختیار کرتی ہے تو گلگت بلتستان کا ہر فرد وزیر اعظم شہباز شریف کے استقبال کے لیے باہر نکلے گا۔ یہ بیان محض ایک سیاسی جملہ نہیں بلکہ ایک بالغ نظری، وسیع تر سوچ اور قومی مفاد کو ترجیح دینے کی عکاسی کرتا ہے۔
اس کے برعکس، پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کی بعض دیگر قیادت کا این ایف سی ایوارڈ کے حوالے سے اختیار کردہ موقف نہ صرف غیر منطقی دکھائی دیتا ہے بلکہ زمینی حقائق سے بھی متصادم نظر آتا ہے۔ یہ متضاد رویہ درحقیقت اس خدشے کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر این ایف سی ایوارڈ کے معاملے میں پیش رفت ہوتی ہے تو اس کا سیاسی کریڈٹ مسلم لیگ (ن) کو مل جائے گا، خصوصاً اس لیے کہ سابق وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن اس معاملے پر سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔ یوں ایک قومی اور اجتماعی مسئلے کو محض سیاسی فائدے یا نقصان کے تناظر میں دیکھنا گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔
ایک طرف پیپلز پارٹی کی قیادت کا یہ تنگ نظری پر مبنی رویہ ہے، تو دوسری جانب سید مہدی شاہ جیسے قدآور اور تجربہ کار سیاستدان کا واضح اور دو ٹوک مؤقف موجود ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے ہر فرد کا مسئلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تمام سیاسی قوتوں کو اختلافات بھلا کر اس مقصد کے لیے یکجا ہو کر جدوجہد کرنی چاہیے۔
اس وقت پیپلز پارٹی کے اندر سے دو بالکل متضاد مؤقف سامنے آ رہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کی قیادت یک زبان ہو کر این ایف سی ایوارڈ کے معاملے پر واضح اور مثبت موقف اپنائے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ پارٹی قیادت صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کو قائل کرے کہ وہ پنجاب کی طرح گلگت بلتستان کے حق میں کھڑے ہوں؟ اگر واقعی پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے حقوق کی علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تو اسے مخالفت برائے مخالفت اور ذاتی و سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر عملی کردار ادا کرنا ہوگا۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں گلگت بلتستان کے لیے چند اہم اور بنیادی اقدامات کیے۔ گندم سبسڈی کا اجرا اور ایف سی آر جیسے ظالمانہ قانون کا خاتمہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس جماعت نے ماضی میں گلگت بلتستان کے عوام کے لیے مثبت فیصلے کیے۔ یہ اقدامات اس دور کے حالات کے تناظر میں یقیناً قابلِ تحسین تھے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا گلگت بلتستان کے آئینی اور معاشی مستقبل کے لیے بھی اسی جرات، سنجیدگی اور ویژن کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے؟
اگر پیپلز پارٹی واقعی خود کو گلگت بلتستان کی ’’مسیحا‘‘ جماعت سمجھتی ہے تو اب وقت آ گیا ہے کہ وہ محض دعووں سے آگے بڑھے۔ گلگت بلتستان کی مقامی سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ این ایف سی ایوارڈ میں حصہ داری کے لیے حافظ حفیظ الرحمن کی سنجیدہ کوششوں کی حمایت کرے، نہ کہ صرف سیاسی مخالفت کی بنیاد پر اس اہم قومی مسئلے کو متنازع بنانے کی کوشش کرے۔
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر پیپلز پارٹی کی مقامی قیادت واقعی گلگت بلتستان کی معاشی ترقی، خوشحالی اور خودمختاری کی خواہاں ہے تو اسے سید مہدی شاہ کے مؤقف کی تقلید کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی اس مثبت کوشش کا کھلے دل سے ساتھ دینا چاہیے، اور صوبہ سندھ کی قیادت کو بھی اس معاملے میں منفی کردار ادا کرنے سے روکنا چاہیے۔ این ایف سی ایوارڈ کوئی سیاسی ہتھیار نہیں بلکہ گلگت بلتستان کے روشن مستقبل کی کنجی ہے، اور اس پر سیاست نہیں بلکہ سنجیدہ قومی سوچ کی ضرورت ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button