کالمز

بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔۔۔۔؟

محمد طاہر رانا

گزشتہ کچھ دنوں سے شہر میں ایک عجیب تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔سڑکیں میٹل ہو رہی ہیں، جا بجا موجود کھڈوں کو پر کیا جا رہا ہے،نامکمل اور کئی سالوں سے التوا کا شکار ترقیاتی کام دوبارہ شروع کر دئیے گئے ہیں ، کام چور اور کرپٹ ٹھیکیدار حضرات کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں، محکمہ پی ڈبلیو ڈی میں آئے روز کرپٹ آفیسران کو معطل کیا جا رہا ہے،حکومتی خزانے کو نقصان پہنچانے والے عناصر کا گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔سفارشی اور رشوت کلچر کے خاتمے پر زور دیا جا رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ شاید کسی نے شہر کو دوبارہ تعمیر کرنے کی ٹھان لی ہے۔

TITLEٹیڑھے کام ایک دم سے کیسے سیدھے ہوگئے اور اونٹ پہاڑ کے نیچے کیسے آیا ،کئی سالوں سے حکومت کے خزانے کو لوٹنے اور عوام کے پیسے سے عیش کرنے والے ٹھیکیدار اور پی ڈبلیو ڈی کے کرپٹ افسران کا الو کس نے سیدھا کیا، مشہور مقولہ ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ،بکرے نے ایک نہ ایک دن تو چھری کے نیچے آنا ہی تھا۔ موجودہ چیف سیکریٹری یونس ڈاگا نے حقیقی معنوں میں اپنے انتظامی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے جس مہم کا آغاز کیا ہے اسکی جھلک شہر کی سڑکوں میں نظر آنے لگی ہے انہوں نے کرپشن کے خاتمے خصوصا محکمہ تعمیرات میں موجود خرابیوں کے خاتمے کیلئے جس طرح کے اقدامات اٹھائے ہیں اگر یہ 4 سال پہلے اٹھائے جاتے تو آج معاشرہ کرپشن کے دلدل میں اس قدر نہیں پھنستا۔گلگت کے بڑے تعمیراتی منصوبے آر سی سی بریج کنوداس تو تعمیر ہو گیا لیکن اس کی رابطہ سڑکوں کو نظر انداز کیا گیا تھا چیف سیکریٹری کے واضح اور سخت احکامات کے بعد زنگ آلود اور ایک عرصے سے گیراجوں میں بند مشینری دوبارہ روڈ پر نظر آنے لگی ہے۔سکوار چونگی روڈ اور زولفقار آباد بریج جیسے بڑے پروجیکٹس پر بھی کام میں تیزی آگئی ہے۔

ایک سروے کے دوران انکشاف ہوا ہیکہ سینکڑوں تعمیراتی سکیمیں ایسی بھی ہیں جن کے پیسے ٹھیکیدار وصول کر چکے ہیں اور یہ سکیمیں اے ڈی پی سے بھی خارج کر دئیے گئے ہیں جبکہ زمین میں ایسے پروجیکٹس کا وجود ہی نہیں ہے یا تعمیراتی کام ادھورا چھوڑا گیاہے ،اس صورتحال سے نمٹنے اور پروجیکٹس کی تکمیل کیلئے کونسے طریقے اپنائے جائنگے اسکے بارے میں قیاس آرائی قبل از وقت ہوگی۔ ان نامکمل پروجیکٹس میں زیادہ تعداد سکولوں کی ہے۔بارگو پائین میں زیر تعمیر اور گزشتہ 4 سالوں سے التوا کا شکار گرلز سکول کی بلڈنگ کے بارے میں کئی بار سروے بھی اخبارات میں چھپتا رہالیکن ٹھیکیدار کے سر پر جوں تک نہ رینگی ،گرلز سکول کی بلڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے طالبات کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں،دوسری طرف سکو ل کی نامکمل بلڈنگ کو موالیوں نے اپنا اڈا بنایا ہوا ہے اورصدافسوس جس سکول پر بچیوں کی تعلیم کیلئے حکومت خطیر رقم خرچ کر رہی ہے اس میں جوئے کا بازار گرم ہوتا ہے ۔

چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کی طرف سے سخت کاروائی کے اعلان کے بعد اب ٹھیکیداروں کو شاید جیل کی سلاخیں نظر آنے لگیں ہیں اسی لئے شہر کی سڑکوں پر ایک طویل عرصے سے غائب مشینری دوبارہ نظر آنے لگی ہے اور تعمیراتی کام میں تیزی سے لگتا یوں ہیکہ کچھ عرصے کے دوران شہر کا نقشہ بدل جائیگا، جس کام کا آغاز چیف سیکریٹری صاحب نے کیا ہے اسے عوام میں پزیرائی حاصل ہو رہی ہے اور یقیناًموجودہ چیف سیکریٹری ایک اچھے انتظامی سربراہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

گلگت بلتستان کو ملنے والے ڈویلپمنٹ فنڈ کو اگر صحیح معنوں میں خرچ کیا جاتا اور تعمیراتی کام میں خرد برد اور کرپشن کی روک تھام کا بندوبست کیا جاتا تو آج گلگت بلتستان میں ایک بھی سکیم زیر التوانہیں رہتی۔چیف سیکریٹری صاحب کے بھر پور ایکشن کا دی اینڈ کیا ہوگا ۔۔۔یہ آنے والا وقت بتائیگا لیکن ہماری یہ گزارش ہیکہ جناب جب تک 10 پرسینٹ کا خاتمہ نہ ہوگا تب تک کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں۔

قارئین بحیثیت قوم ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آج جہاں دنیا ترقی کے تمام مراحل طے کر چکی ہے ایسے میں ہم کہاں کھڑے ہیں ،ہمیں بے حسی کے بجائے ایسے عناصر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا ہے جن کی وجہ سے ہم زوال پزیری کی طرف جا رہے ہیں ، ٹھیکیدار حضرات بھی اس خطے سے تعلق رکھتے ہیں اور محکمہ تعمیرات میں موجود افسران بھی لیکن انہیں دھرتی کی محبت سے زیادہ پیسہ عزیز ہے۔اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور حلال حرام کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے ۔(آمین)

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button