ممتاز عالِم دین الواعظ رائے سید خلیل صاحب کی یاد میں
ازقلم سفرشاہ داورشاہ
الواعظ رائے سید خلیل کا شمار اسماعیلی طریقہ بورڑ پاکستان کے ان نامور اسکالرز میں ہوتا ہے۔ جس نے اپنی پوری زندگی بالعموم پورے پاکستان اور بالخصوص گلگت بلتستان اور چترال کے اسماعیلیوں کے دلوں میں امامؑ کی محبت اور امام کے اداروں کو مضبوط بنانے کے لئے وقف کردی۔ یہاں تک کہ آپ کی زندگی کے چند لمحے باقی تھے آپ اسماعیلی طریقہ بورڈ گوپس یاسین کے آفس میں اپنے شاگردوں کے ساتھ موجود تھے۔سب کو کیا پتہ تھا کہ اُستاد موصوف انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الوداع کہنے آیا ہے۔ ۲۰ مارچ شام کا وقت تھا۔آفس سے گھر کی طرف چل پڑا یہ سوچ کے کہ کل نوروز مبارک ہے۔ اس کے لئے مذہبی عقیدت کے ساتھ تیاری کریں پر یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ نوروز اسکو اپنے مالک حقیقی کے ساتھ مناناہے۔ اور اس کو نوروز کی مبارکبادی دینے گلگت بلتستان کے کونے کونے سے اس کے چاہنے والے اسکے گھر آنے والے ہیں۔ بہر حال گھر پہنچنے تک کوئی ایسی بیماری یا جسمانی تکلیف استاد موصوف کو نہیں تھی۔ اپنے گھر کے دہلیز پر ہاتھ میں تسبیح لئے اور زبان پر اسماء الحسنیٰ کا نام لیتے ہوئے حرکتِ قلب بند ہونے کے باعث ہمیشہ ہمیشہ کے لئے آرام کر گئے۔ اِنّا لِلّلہ وَاِنّااِلیہِ رَاجِعون۔
الواعظ رائے سّید خلیل صاحب اُس مبلغ خاندان کا چشم وچراغ تھا جنہوں نے سینکڑوں سالوں سے امامؑ کے در کی اور اسماعیلی جماعت کی خدمت سر انجام دی ہے۔ حکیم سیدنا ناصر خسرو جب یمگان میں اسماعیلی دعوت کا کام کر رہے تھے اس وقت سیّدخلیل کے جدِامجد سیدصحراب ولی پیر کے ہم نشین تھے۔ اور اسماعیلی مذہب کو پھیلانے میں آپ کے خاندان نے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کی۔ یہ آپ ہی کا خاندان تھا جس نے چترال، ورشگوم، غذر، ہنزہ اور گلگت میں اسماعیلی طریقہ کو روشناس کروایا اور تن من دھن سے جماعت اور امامؑ کی خدمت کی۔ اپنے خاندان کے اس مبلغانہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی زندگی بھی امام ؑ اور جماعت کے لئے وقف کردی۔ گلگت بلتستان اور چترال کے کونے کونے، ہر جماعت خانہ میں اور گھر گھر جاکر اسماعیلی مذہب کی تبلیغ کی۔ رات کو رات، دن کو دن نہیں کہا۔ دل میں امامؑ کی محبت کو دل میں لے کر ان کھٹن پہاڑی راستے، ندی نالے اور دریاؤں کی پروا کئے بغیر کبھی برست اور ٹیرو، کبھی یاسین کے دور دراز علاقے، کبھی ایمت کے پہاڑی اور دشوار گزار راستے اور کبھی سوست کے بارڈر پر کئی کئی دن پیدل چل کر کبھی کھانا نصیب ہوا تو کبھی بھوکا رہ کر ان جماعتوں کے دلوں میں امام ؑ کے محبت کو بھر دیا۔
امام سلطان محمد شاہ ؑ کے دور میں جب ڈائمنڈ جوبلی سے کچھ فنڈ گلگت بلتستان کے گرد و نواح میں سکولز قائم کرنے کے لئے مختص کیا گیا تو سیّد خلیل نے جماعت کی علمی خدمت ڈائمنڈ جوبلی اسکول سے منسلک ہو کر کی۔ اس کے بعد جب امام شاہ کریم الحسینی نے 1969ء میں جب سنٹرل ایشیاء کی جماعت کے لئے آئین دیا اور اس آئین کے تحت سپریم جو ادارہ تھا وہ سینٹرل ایشیاء سپریم کونسل تھا۔ رائے صاحب اس ادارے میں ایک مخلص رکن کی حیثیت سے جماعت کی خدمت کی۔ اور جب 1973ء میں چترال اور گلگت بلتستان کی جماعت کو اسماعیلیہ ایسوسی ایشن پاکستان کے ساتھ ملایا گیا تو سیّد خلیل نے الواعظ کی حیثیت سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ اس کے بعد 1986ء میں جب حاضر امامؑ نے پوری دنیا کے اسماعیلیوں کے لئے نیا آئین دیا تو اس وقت اسماعیلیہ ایسوسی ایشن جو اسماعیلی دعوت کا فریضہ انجام دے رہا تھا اس کانام آئین میں تبدیل کرکے دی شیعہ امامی اسماعیلی طریقہ اینڈ ریلیجیس ایجوکیشن بورڑ رکھا گیا تو آپ موصوف اس ادارے کے ساتھ منسلک ہو کر کچھ سال پہلے ریٹائرڈ ہوا تھا۔ لیکن آپ کو اسماعیلی مذہب کی تعلیم میں گہری سمجھ تھی۔ کہ عصر حاضر میں دنیائے اسماعیلیت میں اس جیسے عالم کم ہی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ استاد موصوف اپنی آخری سانسوں تک اس ادارے کے ساتھ منسلک رہے۔ اور صورت حال یہ تھی کہ جہاں کہیں بھی آپ کی علمی خدمات کی ضرورت ہوتی تو آپ فوراً حاضر ہو جاتے۔
یہاں یہ نقط بھی اہم ہے کہ اسماعیلی تعلیمات کو سمجھنے کے لئے فارسی اور عربی زبان میں دسترس ہونا لازمی ہے۔ کیونکہ اکثر اسماعیلی لیٹریچر عربی یا فارسی زبان میں دستیاب ہے۔ استاد موصوف کو عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں دسترس حاصل تھا۔ آپ ایک شعلہ بیاں مقرر تھے۔ آپ کی دلچسپ گفتگو کا یہ عالم تھا کہ اکثر کئی گھنٹوں تک منبر سے بولتے رہتے مگر سامعین میں سے کسی کو بوریت کا احساس تک نہیں ہوتا۔ آپ گلگت بلتستان اور چترال کی جماعت میں بے حد مقبول ہونے کی اصل وجہ یہ تھی کہ آپ بیک وقت گلگت بلتستان اور چترال میں جہاں اسماعیلی جماعت رہتی تھی ان کی مقامی زبان میں اس طرح مخاطب ہوتے تھے جیسے کہ وہ استاد کی مادری زبان ہو۔ آپ بیک وقت شنا، کھوار، بروشسکی، اردو، فارسی اور عربی یعنی ۶ زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ آپ جب منبر پر براجمان ہوتے تو سامعین کی مزاج کے مطابق گفتگو کرتے۔ جب آپ سنجیدہ رہتے تو سامعین پر ایک عمدہ اثر چھوڑتے لیکن ساتھ میں رائے صاحب اپنی فطری مزاح کے باعث بھی جماعت میں بہت مقبول تھے۔ ان میں عوام میں مقبولیت کا یہ منہ بولتا ثبوت تھا کہ جب آپ نے اس فانی دنیا کو الوداع کرلیا تو گلگت بلتستان کے کونے کونے سے ہزاروں کی تعداد میں آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے الوداع کرنے آئے اور ہر کسی کی آنکھ آپ کی یاد میں نم تھی۔ غذر کے بڑے بڑے اجتماعوں میں یہ بھی ایک بڑا اجتماع تھا۔
الواعظ رائے سیّدخلیل صاحب وقت کی انتہائی قدر کرتے تھے۔ اپنی فرائض کو عبادت سمجھ کر انجام دیتے تھے۔ جہاں کہیں بھی آپ کی علمی خدمت کے لئے آواز آتی وہاں آپ اپنا روایتی بستہ اور ہاتھ میں تسبیح لئے روانہ ہو جاتے تھے۔ اور ہمیشہ آپ میں یہ خصوصیت نمایاں رہیں کہ آپ مقررہ وقت سے پہلے پروگرام کی جگہ میں پہنچ جاتے۔ نہ صرف پروگراموں میں بلکہ دفتری اوقات میں بھی آپ مقررہ وقت میں ہی آپ دفتر میں موجود ہوتے۔ آپ کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ ہر نصیحت کو نہ صرف جماعت کے لئے کرتے تھے بلکہ پہلے خود عملاً انجام دیتے تھے۔ عبادت بندگی میں آپ پابند تھے۔ صاف گوئی کی وجہ سے بے حد مقبول ہوئے۔ جو بھی جائز بات کہنے کی ہو تو سامنے سامنے ہی کہ دیتے تھے۔ لیکن کوئی چیز دل میں نہیں رکھتے۔
آپ کی خدمات نہ صرف اسماعیلی جماعت کے لئے بلکہ خطے میں دیگر مسلمانوں کے لئے بھی قابل ستائش تھیں۔ وقت کے امام کی تکثریتی سوچ کو فروغ دیتے ہوئے دیگر برادریوں کے ساتھ اچھے اچھے تعلقات قائم رکھنے میں انتہائی حد تک خدمت کی۔ اور گلگت بلتستان میں امن قائم رکھنے میں ہر طرح سے اسماعیلی جماعت کو اپنی واعظ و نصیحت کے ذریعے قائل کیا کہ اس علاقے کی تعمیر اور ترقی کے لئے ضروری ہے کہ علاقے میں رہنے والے تمام مسلمان آپس میں اسلامی بھائی چارے اور اتحاد و اتفاق کو قائم رکھتے ہوئے رہیں۔ اب تک گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی اور امن کو قائم رکھنے میں رائے صاحب نے جو حصہ ملایا تھا اس کو گلگت بلتستان کے عوام کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ آپ نے جو بھی قدم اُٹھایا اجتماعی سوچ کو سامنے رکھ کر اُٹھایا۔ اپنی ذات اور خاندان کی مفاداد کو اجتماعی مفاداد پر قربان کر دیا۔ یوں تو اسماعیلی دنیا کا یہ چمکتا ستارہ آج ہم میں موجود نہیں ہیں۔ لیکن وہ اپنی سحر انگیز شخصیت، گفتگو اور خدمات کے باعث اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں زندہ و جاوید رہے گا۔