خدارا… داریل تانگیر کو وزیرستان مت بناؤ!
دیامر گرینڈ جرگہ میں ضلع دیامر کے انتہائی ذہین و فطین علماء کرام اور دانشوران شامل ہیں‘ بالخصوص جرگے کے چیئرمین مولانا عنایت اللہ‘ جناب ملک مسکین‘ جناب حاجی امیرجان اور عنایت اللہ شمالی ؔ انتہائی زیرک ‘ علاقائی معاملات پر گہری نظر اور سلجھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔اور سلجھاتے رہتے ہیں۔ ملکی اور بین الاقوامی اموراور نشیب و فراز سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے حکومت کے رویے کی بھر پور مخالفت کی جو انہوں نے داریل وتانگیر کے حوالے سے اپنا رکھا ہے۔حالانکہ جرگہ نے ہمیشہ مشکل کے حالات میں حکومت اور انتظامیہ اور عوام کے معاملات سلجھانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔مگر حکومت نے ان لوگوں کو نظر انداز کرکے اپنی من مانی چلائی جس سے حالات سدھرنے کے بجائے بگڑ گئے جو افسوس کن کے ساتھ حیرت کن بھی ہے۔
مولانا لقمان حکیم صاحب جمعیت علماء اسلام کے گلگت بلتستان کے امیر ہیں اور جید عالم دین ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے گلگت بلتستان کے سیاسی و مذہبی حالات اور علاقائی امور سے گہری وابستگی رکھتے ہیں۔مولانا کی صدارت میں بشمول مولانا قاضی عنایت اللہ اور جے یو آئی گلگت بلتستان کے تمام ذمہ داروں کی طرف سے ایک مشترکہ اخباری بیان میں کہا گیاکہ’’ داریل تانگیر میں محبِ وطن عوام کے گھروں کو دھماکوں سے اڑانے سے نتائج بھیانک ہونگے۔ حکومت داریل تانگیر کو سوات اور وزیرستان بنانے سے باز رہے،ایک منظم سازش کے تحت فوجی اپریشن کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔مطلوب ملزمان کو گرفتار کرنے کے بجائے ایک منصوبہ کے تحت فرار کرایا گیا ہے، ایک ملزم کی سزا پوری عوام کو دینا کہاں کا انصاف ہے‘‘۔سابق ممبر جناب حمایت اللہ خان مرکزی رہنماء اہل سنت والجماعت نے اپنے اخباری بیان میں کہا کہ’’ دیامر کے عوام محب وطن ہیں، غریب لوگوں کے گھروں کو دھماکوں سے اڑانے کے نتائج بھیانک ثابت ہونگے،صوبائی حکومت دیامر کے محبِ وطن عوام کے ساتھ زیادتیں بند کریں ورنہ اہل سنت والجماعت کرپٹ حکمرانوں کے خلاف احتجاج کرنے پر مجبور ہوگی۔کسی ایک دہشت گرد کو بنیاد بنا کر دیامر کے علماء اور عوام کو تنگ وہراساں کرنا بند کردیا جائے۔ عالمی طاقتیں اپنے مقاصد کے لیے آپس میں لڑانے کی سازش کررہی ہیں۔صوبائی حکومت بھی اس میں ملوث ہے۔ جنرل ریٹائرڈحمید گل کے بیان سے اتفاق کرتے ہیں‘‘۔خطیب مرکزی جامع مسجد جناب قاضی نثار احمد نے کہا کہ’’مفروروں کے نام پر غریبوں کے گھروں کو بموں سے اڑانا‘ حالات کو مزیدخراب کرانیکی سازش ہے،بے گناہ انسانوں پر ظلم ڈھانا اسلام کسی صورت اجازت نہیں دیتا،حکمران یہود و نصاریٰ کو خوش کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دیامر کے عوام محب وطن ہیں۔حکومت اور انتظامیہ اپنا رویہ درست کرے ورنہ اہلسنت عوام احتجاج کا حق محفوظ رکھتی ہے جو بھر پور طریقے سے استعمال کی جائے گی‘‘۔مولانا عطاء اللہ شہاب نے کہاکہ سانحہ تانگیر ، حکومت اپریشن میں مطلوب افراد کی گرفتاری تک محدود رہے،پاؤں کے بجائے اگر دل کے اپریشن کی کوشش کی گئی توکوئی قبول نہیں کرے گا‘‘۔گلگت بلتستان ورلڈ فورم کے چیئرمین ڈاکٹر محمدزمان نے کہا کہ ’’ دھماکہ خیز مواد سے گھروں کو مسمار کرنا انسانی حقوق کے خلاف ورزی ہے،حکومت نے انتہائی غلط اقدام کیا۔بارود سے گھروں کو اڑانا، علاقے کا گھیراؤ کرنے اور عوام کوتنگ کرنے والے پولیس فورس کے ذمہ داروں کے خلاف اور اس بدترین ظلم کے خلاف اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمیشن میں آواز اٹھائیں گے‘‘۔جماعت اسلامی گلگت بلتستان کے امیر مولانا عبدالسمیع نے کہا کہ’’ ملزمان کو جواز بنا کر آپریشن اور عوام کو تنگ کرنا زیادتی ہے،ضلع دیامر کے عوا م کو اسلام پسند اور محب وطن ہونے کی سزادی جارہی ہے۔ایسے اقدامات سے مسائل حل نہیں کیے جاسکتے،بلکہ حکومت کے لیے مزید حالات گھمبیر ہوجاتے ہیں۔جماعت اسلامی ہر غلط کام کی بھر مزاحمت کرے گی‘‘۔ پروگریسو یوتھ فرنٹ کے چیئرمین کامریڈ باباجان نے کہا کہ’’حکومت داریل تانگیر میں دھماکوں سے گھر اڑا کر اسرائیل کا چہرہ دکھا رہی ہے، اقدام قابل مذمت ہے‘‘۔مذکورہ بالا تمام افراد نے شہید ڈی ایس پی جنا ب عطاء اللہ صاحب کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کی تاکید کی مگر اس کے آڑ میں بے گناہ عوام کی زندگی اجیرن بنانے سے حکومت کی بھر پورانداز میں مذمت بھی کی۔
ہم یہاں یہ عرض کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ ضلع دیامر کے عوام نہ انتہاپسند ہیں نہ دہشت گرد،کسی بھی سنجیدہ آدمی نے ڈی ایس پی عطاء اللہ شہید کے قتل کی حمایت نہیں کی بلکہ سخت الفاظ میں مذمت کی،دیامر جرگہ نے ہمیشہ مثبت کردار اداکیا‘ حالیہ دنوں میں سنگین مقدمات میں ملوث آٹھ(۸) ملزمان نے دیامر جرگہ کی تعاون سے گرفتاری پیش کی اور خود کو قانون کے حوالہ کیا۔گزشتہ سال بھی دیامر جرگے کے عمائدین نے حکومت کے نامزد کردہ دس بے گناہ انسانوں کو حکومت کے حوالہ کیا جو آج تک ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔کیا اس طرح اپنے ہی بے گناہ لوگوں کو امن کی خاطر حکومت کے شکنجے میں دینے کی مثال ،گلگت بلتستان کے کسی دوسرے علاقے یا پورے ملک میں کہیں پائی جاتی ہے؟ یقیناًنہیں۔ اس سے دیامر کے عوام کی امن پسندی کا ثبوت ملتا ہے۔گزشتہ دنوں داریل تانگیر میں دھماکوں سے اُڑائے جانے والوں گھروں کی انتہائی غمناک‘ اندوہناک اور وحشت ناک خبریں پورے ملک اور بیرون ملک رہائش پذیر اہل دیامر نے بڑے دکھ درد اور کرب والم میں سنی۔ہمیں معلوم ہے کہ اہل دیامر اس سب کے باوجود بھی پرامن رہیں گے۔سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں صبر وتحمل سے کام لیں گے۔ضلع دیامرکے عوام جانتے ہیں کہ امن انسانی زندگی کی سب سے اہم ضرورت ہے۔امن کے بغیر ترقی کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔امن ہر مہذب اور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے اور امن ہی زندگی کی بقا کی ضامن ہے۔ غور سے جائزہ لیا جائے توضلع دیامر کے ساتھ ہر انداز میں زیادتی کی جاتی ہے۔ حکومت کا کونسا شعبہ ہے جس میں بہتر کارکردگی دکھائی جاتی ہے۔ حالیہ واقعات پرپورا دیامر افسردہ اور غمگین ہے مگر سنگ دل اور بے حس حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔ اور ضلع دیامر کے کٹھ پتلی ممبران بھی کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں بلکہ و ہ تو غاصبوں کی لَے میں لَے ملا رہے ہیں۔ہماری مقتدر طبقوں سے گزارش ہوگی کہ امن وآمان برباد کرنے والے دہشت گردوں‘ جرائم پیشہ افراد اور انسانیت و معاشرت سوزوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ پورے گلگت بلتستان میں ان کو بے نقاب کیا جائے اور سرعام انہیں پھانسی دی جائے ،مگر ان کی آڑ میں غریب اور مظلوم طبقے کو تنگ نہ کیا جائے ۔اگر حکومت لا اینڈ آرڈر اور دیامر کو قومی دھارے میں شامل کرنا اورمعاشرت کی تبدیلی میں اتنی ہی مخلص ہے تو کیا یہ کام نوک خنجر کے بجائے نوک قلم سے انجام نہیں دیا جاسکتا ہے۔گزشتہ ایک سال سے کے کے ایچ اور بزعم خویش دیامر کے لوگوں کا قبلہ درست کرنے کے لیے جو فنڈ خرچ کیا گیا بلکہ بٹورا گیا اس سے دیامر میں تعلیمی انقلاب نہیں لایا جاسکتا تھا؟اور لوگوں کو گڈگورننس کے ذریعے رام نہیں کیا جاسکتا تھا؟ کاش اس نہج پہ کوئی سوچے۔اے کاش!۔ ارباب اقتدار سنجید گی سے اس معاملے کو نمٹائے۔ نقارہ خلق کو سنے۔
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ اور ارباب بست وکشاد‘ دیامر کے محب وطن عوام کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں ، حالانکہ حقیقت اس کے بالکل مترادف ہے۔ دہشت گردی کے اصل مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے اسباب وعلل اورمحرکات کا عمیق جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دہشت گردی ایک ’’سیاسی کینسر‘‘ ہے جو بنیادی انسانی حقوق سے محرومی اور ظلم وستم کی انتہا سے (یعنی بربریت‘ چنگیزت‘اوبامیت اور پرویزیت و زرداریت سے) ، مغلوب ‘ محکوم اور مظلوم لوگوں کے اندراز خود پروش پاتا ہے اور بڑھتا جاتا ہے ‘ ان مظلوم لوگوں کا تعلق کسی بھی مذہب ‘ علاقہ یا رنگ و نسل سے ہوتا ہے ‘ پوری دنیا ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اس سیاسی کینسر کا علاج مریض کو دھمکانا‘ ڈرانااور لعن و طعن اور سب و شتم کرنااور ان کے گھروں کو اڑانے سے نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان کی مسلسل محرومیوں اور معاشرتی ناانصافیوں کے ازالے سے ہی کیا جاسکتا ہے۔اگر ان حقیقی مسائل کو نظر انداز کرکے غریب عوام کو دھونس دھمکی‘ جبر و اکراہ سے زیر کرنے کی کوشش کی گئی تو یہ ’’سیاسی کینسر ‘‘ دبنے اور ختم ہونے کے بجائے مزید قوت حاصل کرے گا اور توانا ہوگا اور اس کا رد عمل شدید سے شدید تر ہوجائے گا۔ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ضلع دیامر کے ساتھ دوغلا رویہ اپنایا جاتا ہے جس سے شعوری اور لاشعوری طو رپر ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں۔اگر چیف سکریٹری اور دیگر ارباب اقتدار چاہیے تو ضلع دیامر میں تعلیمی انقلاب کے ذریعے سوفیصد تبدیلی لاسکتے ہیں مگر یہ تو ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔