پرویز مشرف اور جمشید حلبی
تحریرڈاکٹر محمد زمان خان
doctorzaman@gmail.com
جب برصغیر پاک وہند کی بکھری قوم کا جھنڈا قائد اعظم کے ہاتھ میں آیا اپنوں کی بھی بے شمار مخالفت کے باوجود قائد اعظم نے مسلمانوں کو ایک مظبوط قوم کی طرح باطل کے سامنے کھڑا کیا اور بہت ہی تھوڑے عرصے میں مسلمانو ں کو ایک الگ خود مختار قوم اور ملک کا وجود ناممکن کو ممکن بناکر رکھ دیا پاکستان کے وجود میں آنے کے ایک سال بعداپنے ہی میر جعفروں اور میر صادقوں نے قائد کے خلاف سازشیں کی اپنے آخری ایام زندگی میں جب بانی پاکستان زیارت سے کراچی پہنچے تو ایک ایسی ایمبولینس بھیجی گئی جس کا پیڑول ر استے میں ختم ہوگیا اور قائد کو یہ سوچنے پر مجبور کیاکہ اس نے کن لوگوں کے لئے یہ ملک حاصل کیاہے جب قائد کا انتقال ہوا تو یہی سازشی عناصر ان کی قبر پر جاکر مگر مچھ کے آنسوں روتے رہے سازشوں کایہ سلسلہ یہی پر ختم نہیں ہوا قائد ملت لیاقت علی خان بھی ان سازشیوں کا شکار ہوئے اور کمپنی باغ میں قائد ملت سے شہید ملت بنائے گئے اقتدار کا کھیل خونی سڑک پر رواں دواں رہا جب بھٹو نے ٹوٹے پھوٹے پاکستان کا انتظام سنبھالا ملک کو 1973 کا متفقہ آئین دیا ملک میں ایٹمی قوت بنانے کی ابتداء کی بڑے بڑے قومی منصوبوں کا ابتداء کیا اقوام مسلمین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اقوام متحدہ کو للکار ا تو غیر وں سے مل کر اپنوں نے ان کا قصہ تمام کیا اور ملک پھر بحرنوں میں گرگیا ضیاء آیا افغان جنگ میں امریکہ سے مل کر روس کو شکست دی تو کام نکل جانے کے بعد دشمنوں نے ان کو بھی ہوا میں تحلیل کر دیا نوازشریف نے اقتدار سنبھالا ملک کو ترقی کے راہ پر گامزن کیا ملک کو ایٹمی طاقت بنانے کا اعلان کیا سازشیوں کو پاکستان کا ایٹمی قوت بننا ہضم نہ ہوا ان کوبھی پہلے جیل میں پھر ملک بدر کیا گیا اس کے بعد بھٹو کی بیٹی جو قوم کی ایک قد آور لیڈر تھی قوم اس پر جان نچھاور کرتی تھی اس کو ملک کی زنجیر کہتی تھی اس کو اسی کمپنی باغ میں شہید کیا گیا آمریت اور جمہوریت کے دعویدار وں کے درمیا ن یہ نصف صدی سے زیادہ پر محیط جنگ جاری تھی درمیان میں پرویز مشرف اقتدار میں آتے ہیں اس بلی چوہے کی کھیل میں نواز شریف اور پرویز مشرف کو دست وگریبان بنا یا گیا .
پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا اس وقت نوازشریف کے سارے ساتھی پرویز مشرف کی چھتری تلے گھس گئے مشرف کو اپنا نجات دھندہ کہتے نہیں تھکتے تھے بمع وردی کئی مرتبہ ملک کی صدارت ان کے قدموں میں نچھاور کرنے کے وعدے کرتے رہے 11سال مشرف سے بے شمار فائدے اٹھاتے رہے پلاٹ پرمٹ اور پروموشن پہ بکتے رہے پرویز مشرف بھی ان کی منافقت پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کرتے رہے اور ان سے ایسے کام کروائے گئے جس سے پرویزمشرف کا گراف گرتا رہا ہر اچھے کام کایہی سازشی لوگ کریڈٹ لیتے رہے اور ہر برا کا م پرویز مشرف کے کھاتے میں ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے رہے پرویز مشرف سے جو بڑے بڑے فیصلے ان اتحادیوں نے کرائے ان میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ ججوں کامعاملہ پاکستان پر ڈرون حملے ان سب معاملات پر یہ سازشی عناصر شریک جرم رہے آخر کار پرویزمشرف کو اپنی وردی جسے وہ اپنی کھال کہتے تھے اتار کر خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنی پڑی چار سال خودساختہ جلاوطنی کے دوران ان کا رابطہ عوام سے سوائے سوشل میڈیا یا الیکڑانک میدیا کے کٹ گیا انہوں نے جب اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کیا تھا تو ملکی خزانے کو اس بحران کاسامنا نہیں تھا پانچ سالوں میں ملک بے شمار مسائل کے دلدل میں پھنس گیا لوگوں نے پھر پرویز مشرف کو یا دکیا انہوں نے اپنی پارٹی بنائی جو موسمی پرندے ان کی وردی کے سائے میں مفادات حاصل کر رہے تھے وردی اُترنے کے ساتھ ہی ان لوٹوں نے آنکھیں پھیر لیں اور وہ واپس ان درختوں پر جاکر بیٹھ گئے جہاں ان کو اقتدار کے آثار نظر آنے لگے جب سو شل میڈیا کے دودھ پینے والے مجنونوں نے پرویز مشرف کو دنیا کا سب سے بڑا لیڈر اور پاکستانی قوم کا نجات دہندہ کہ کر پاکستان آنے کی دعوت دی تو پرویز مشرف نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور سب سے پہلے پا کستا ن کا نعرہ لگاکر پاکستان پہنچ گئے تب وہ سوشل میڈیا والے پھر کمپیوٹر اور ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہے.
میں پرویز مشرف کے بہت سارے اقدامات سے اختلاف رکھتا ہوں منتخب حکومت کو گرانے کا ان کو کوئی حق نہیں بنتا تھا جس کی سزا وہ آج بگت رہے ہیں آج وہ سارے سازشی کہیں نظر نہیں آرہے ہیں پورے پاکستان میں ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے تضحیک آمیز سلوک پر کوئی آواز نہیں اٹھی سوائے گلگت غذر اور سکردو کے جہا ں کے لوگوں نے ڈٹ کہ پرویز مشرف کی حمایت کی گو کہ صر ف ترقیاتی کاموں کے ایون اقتدار میں مشرف دور میں گلگت بلتستان والوں کا کوئی حصہ نہیں تھا مشرف نے گلگت بلتستان کو اپنا دوسرا گھر کہا مشرف نے باقی پاکستا ن کے لوگوں کی بے وفائی کا انداز ہ لگا کر چترال سے الیکشن لڑنے کا اعلان کیا اپنی حفاطت کے لئے گلگت بلتستان سے کمانڈوز منگوائے جب مشرف کو اسلام آ باد ہائی کورٹ میں پیشی کے لئے لایا گیا توگلگت بلتستان کے بے شمار لوگ ان کے ساتھ تھے جب وکلاگردی کی گئی تو تن تنہایاسین کا وہ دبلاپتلابہادر نوجوان جمشید حلبی ان وکلاکے ڈنڈوں اور لاتوں مکوں سے زخمی ہو کر زمین پر گر پڑا پولیس اور دیگر حکومتی ایجنسیاں تماشادیکھ رہی تھیں اور جمشید حلبی ان بھیڑیوں کے درمیان بے سر وسامانی کی حالت میں جان بچانے کے لئے جدجہد کررہا تھا.
میں مشرف کے کردار سے نہیں بلکہ جمشید حلبی کی بہادری سے متاثر ہوا دور اقتدار میں پرویز مشرف سے ایک آنے کا بھی مفاد نہ لینے کے باوجود بھی یہ دبلاپتلاجوان اپنے قائد کے لئے جان پر کھیلنے کو میدان میں اترآیا جمشید حلبی گلگت بلتستان کے لوگوں کا نمائند ہ تھا جب بھی پاکستان کے حکمرانوں نے گلگت بلتستان کی قوم کو آواز دی اپنی جان نچھاور کی قائداعظم کی آواز پر 28 ہزار مربع کلومیڑ کا علاقہ آزاد کراکر ان کی گود میں ڈالا بٹھونے راجگی سسٹم ختم کیا تو گلگت بلتستان کے لوگوں نے بٹھواور اس کے خاندان پر اپنی جا ن قربان کردی نوازشریف نے آواز دی تو اس کے چاہنے والوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ دی جنرل پرویز مشرف نے کارگل میں آواز دی تو گلگت بلتستان کے لوگوں نے شہادتوں کی سنچریا ں بنا ئیں بھارت پاکستان کے درمیان ہونے والی تمام جنگوں میں گلگت بلتستان والوں نے وفاکے داستان رقم کئے گلگت بلتستان کی قوم نے جنگ آ زادی کے شہداء سے لے کر لالک جان اور جمشید حلبی تک سب نے وفاداری اور قربانی کے مثالیں قائم کیں بے وفائی ہمیشہ پاکستان کے لیڈروں سے ہوئیں ہیں وقت گزرنے کے ساتھ لیڈر گلگت بلتستان کو بھول گئے مراعات سازشیوں نے لئے مسائل میں گلگت بلتستاں کو شامل کیاگیا اب تودینا دیکھ ہی لیاکہ گلگت بلتستان کے لوگ وفادار ہیں وہ ذاتی مفادات پر بکتے نہیں پر لیڈروں کو اس چیز کا ادراک نہیں پرویز مشرف کے اقدامات پر بہت ساروں کو اختلاف تو ہو سکتا ہے قانون اور تاریخ اس کا فیصلہ کرینگے پرویز مشرف نے اس ملک خداداد کی 30 سال سرحدوں کی حفاظت کی ہے ان کے دور میں دشمن کو کبھی بھی پاکستان کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرات نہیں ہوئی وہ دودہائیوں تک ملک کا صدر رہا ہے ان کو ہمارے اپنے عدالتی نظام نے قانونی جواز فراہم کیا اگر مشرف پر قانون کا شکنجہ کساگیا تو ان سب پر دہ نشینوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا جو ان اقدامات میں ایوب خان، یحیٰ ،ضیاء الحق کے ساتھ شریک جرم تھے ورنہ وقت اور حالات کا تقاضہ ہے کہ مشرف کو ان کے ملکی خدمات کو مد نظر رکھتے ہوئے تضحیک نہ کی جائے بلکہ ان کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھا جائے ان کو حراساں نہ کیا جائے. سیاسی کھیل میں ان کو بھی قسمت آزمائی کا موقع ملنا چاہئے پرویز مشرف کے چاہنے والے بھی بے شمار ہیں ان کے چاہنے والے کسی سرپھرے کا دماغ پھر گیا تو پورا نظام درہم برہم ہوسکتا ہے جس کا ملک کسی طور پر بھی متحمل نہیں ہوسکتا ہے وکلا کوبھی ہر وقت یہ متشدد رویہ ترک کرنا پڑے گا جنکی دہشت گردی سے پورا معاشرہ سہماہوا ہے وکلا کی تحریک میں سول سوسائٹی کا بڑا کلیدی کردار رہا ہے وہ صر ف اپنے آپ کو فاتح نہ سمجھے اب عدالتی نظام کا بھی امتحان ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں ذاتی عناد کو دور رکھیں میڈیا کو بھی ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم کہنا ہوگا الیکشن کمیشن بھی اپنے اقدامات پر غور کریں پرویز مشرف کو حراساں کرنے کی پالیسی کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ انکی پارٹی بھی سکون سے الیکشن لڑسکے اگر ایسانہ ہو ا تویہ الیکشن متنازع کہلائیں گے جس کا اثر ملکی ساخت پرپڑسکتے ہیں.
اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائیں (آمین )