معاہدہ کراچی۔۔۔۔۔۔۔۔تاریخی فراڈ
شیرنادر شاہیؔ
یہ وقت بھی دیکھا ہے تاریخ کی آنکھوں نے
لمحوں نے خطاکی تھی صدیوں نے سزا پائی
28اپریل گلگت بلتستان کی تاریخ کا سیاح ترین دن تصور کیا جاتا ہے کیونکہ اس دن سر زمین بے آئین گلگت بلتستان اغیار کے ہاتھوں ایک گھناؤنی سازش کے تحت ایک ایسے ملک کے زیر کنٹرول چلا گیا جو دنیا کے نقشے پر ابھی ابھی ابھرنے کے باعث بے پناہ مسائل میں گھیرا ہوا تھا،جس کے حکمرانوں کے قدم سیاسی نااہلی کے باعث خود ہی لڑکھڑا رہے تھے لیکن اس کے باوجود بھی دونوں غیر فریقین کی بد دیانتی کے باعث گلگت بلتستان کی سادہ لوح عوام کو بے پناہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور اس کا ازالہ شاید کہیں ممکن ہو۔
یہ وہ دن ہے جب نام نہاد آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے خود ساختہ لیڈرز آذاد کشمیر کے سابق صدر سردار ابراہیم ، مسلم کانفرنس کے رہنما سردار غلام عباس اور ہمسایہ ملک پاکستان کی طرف سے وزیر بے محکمہ مشتاق گورمانی کے درمیان کراچی کے مقام پر بند کمرے میں ایک ایسا معاہدہ ہو ا جو گلگت بلتستان کی 20لاکھ سے زائد عوام کو غلامی کے گٹھا ٹوپ اندھیرے میں دکھیلنے کا موجب بنا ۔ اس بات سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا کہ معاہدہ (Agreement) حقیقی معنوں میں ملکیت رکھنے والے فریق کے ساتھ کیا جاتا ہے جو کہ قانونی طور پر زمین یا جائداد کا مالک ہو لیکن 28اپریل1949ء کو نام نہاد آذاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے دو لوگوں نے خود کو دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم او ر ہندوکش کے سنگم میں بسنے والے ، شنا ،بروشسکی،کھوار،بلتی ،وخی اور دیگر زبانیں بولنے والی 20لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل خطہ بے آئین گلگت بلتستان کے لوگوں کو پاکستان کے گود میں حقیقی وارثوں کی طرح رکھ دیا اور اس معاہدہ کو دنیا بھر میں معاہدہ کراچی اور فرنگی زبان میں(Karachi Pact) کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن آفرین گلگت بلتستان کے ان عظیم گمنام سپوتوں کو جنہوں نے عقل و شعور حاصل سنبھالنے کے بعد اس معاہدے کی حقیقت کو دنیا کے سامنے ننگا کردیا اور یہی وجہ ہے کہ آج شعور رکھنے والے لوگ نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ خود کشمیر سے تعلق رکھنے والے بھی اس معاہدے کو جعلی،فراڈ اور نام نہاد معاہدہ کراچی کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ہر سال ا28اپریل کو اس فراڈ معاہدے کے خلاف بھر پور احتجاج کرتے ہوئے اس کی مذمت کرتے ہیں
قارئین کرام ، حکومت پاکستان اور نام نہاد کشمیری رہنماؤں کے مابین پائے جانے والے اس معاہدے کی ایک طرف کوئی قانونی حیثیت نہیں تو دوسری طرف اس معاہدے سے حکمرانوں کے ایک اور بڑے جھوٹ کا بھی پردہ چاک ہوا ہے جو کہ قابل غور ہے ، وہ یہ کہ پاکستان میں جو بھی حکمران آئے انہوں نے گلگت بلتستان کے سادہ لوح عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے اسلا م کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے یکم نومبر1947ء کو وجود میں آنے والی انقلابی کونسل یا میر آف نگر اور ہنزہ کی پاکستان کے ساتھ الحاق کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو کہ جعلی ہے ،اگر یہ الحاق جعلی نہ ہوتا تو پاکستانی حکمران گلگت بلتستان کی آزادی کے دوسال بعد 28 اپریل 1949ء کو ایک بار بھر کشمیر کے خود ساختہ لیڈرز کے ساتھ مل کر معاہدہ نہیں کرتے ،چنانچہ اس معاہدے نے انقلابی کونسل اور میر آف ہنزہ اور نگر کی طرف سے جعلی الحاق(جو کہ پاکستانی حکمرانوں کے مطابق انہوں نے کیا ہے) سے بھی پردہ ہٹانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ اس نام نہاد معاہدے نے گلگت بلتستان کے لوگوں کے دلوں میں کشمیریوں کے لئے نفرت کی پیچ بو دیا ہے اور گلگت بلتستان کے باشعور طلباء اور یوتھ کشمیریوں کے اس غیر زمہ درانہ فعل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور یہ ان کا حق بھی ہے کیوں کہ کسی غیر شخص کو اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ کو وہ اسکی ملکیت کو غیر قانونی طور پر ان کی رضا و خوشنودی کے بغیر کسی غیر کے گود میں ڈال دیں اور اس کو جواز بناکر تیسرا شخص اس کی آزادی، شناخت ، تہذیب و تمدن، رہن سہن کے اطوا ر اور ان کے تاریخ اور اسکے وجود کو مسخ کرتے ہوئے دہائیاں گزرنے کے باوجود اس دور جدید میں بھی ان کو انسانی، سیاسی، آئینی اور جمہوری حقوق سے محرو م رکھے تو اس کے نتائج یقیناًدونوں بیرونی فریقین کے لئے بھیانک نکل سکتے ہیں ۔
اب ایسے حالات میں گلگت بلتستان کی باشعور یوتھ اورطلباء کا یہ فریضہ اول ہے کہ وہ گلگت بلتستان کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے ماضی میں اپنے خلاف ہونے والے سازشوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے مستقبل کا فیصلہ علمی اور شعوری بنیادوں پر کریں بصورت دیگر اگلے 65سال بھی غلامی اور محکومی میں ہی گزر جائے گے